جالندھر08 ستمبر (کے ایم ایس)
کرتارپور راہداری نے 75 سال بعد ایک اوربچھڑے سکھ خاندان کو ملادیا۔ 1947میں اپنے والدین سے بچھڑجانیوالے چند ماہ کے بچے کی طویل انتظار کے بعد بالاخر بہن سے ملاقات ہوگئی۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق امرجیت سنگھ اپنی بہن سمیت انڈیا میں ہی رہ گیا تھا، گوردوارہ دربارصاحب کرتارپور میں مسلمان بہن اور سکھ بھائی کے ملنے کے جذباتی مناظردیکھنے والوں کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔امرجیت سنگھ کی اپنی مسلمان بہن سے دوبارہ ملنے اوران کا مہمان بننے کیلئے ویزا لے کر واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان پہنچا جہاں 65سالہ کلثوم اپنے بھائی کو دیکھ کر فرط جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور دونوں ایک دوسرے سے گلے مل کر زار و قطار روتے رہے۔ فیصل آباد کی رہائشی کلثوم اختر اپنے بیٹے شہزاداحمد اور فیملی کے دیگرافراد کے ہمراہ بھائی سے ملاقات کے لیے پہنچی تھیں۔کلثوم اخترنے بتایا 1947 میں ان کے والدین جالندھر کے نواحی علاقے سے پاکستان آگئے تھے جبکہ ان کا چندماہ کا چھوٹا بھائی اورایک بہن ادھرانڈیا میں ہی رہ گئے تھے۔ کلثوم اخترکے مطابق ان کی پیدائش پاکستان میں ہوئی مگروہ اپنی والدہ سے اپنے بیٹے اوربہن کے بارے سنتی رہتی تھیں، ان کی والدہ اپنے بیٹے اوربیٹی کو یاد کر کے ہروقت روتی اور ان کے بارے میں فکر مند رہتی تھیں۔انہوں نے بتایا کہ انہیں امید نہیں تھی کہ وہ کبھی اپنے بچھڑے بہن ،بھائی سے ملاقات کرسکیں گی۔ تاہم چند برس قبل ان کے والد کے ایک دوست سردار دارا سنگھ پاکستان آئے تووہ ان کے گھربھی آئے تھے۔ ان کی والدہ نے انہیں بتایا کہ ان کا ایک بیٹااوربیٹی انڈیا میں ہی رہ گئے تھے۔ انہیں اپنے گاں کا نام ،گھرکا محل وقوع بتایا۔سردارداراسنگھ نے پھر جالندھر کے گاں پاداواں میں ان کا گھرتلاش کرلیا اورانہیں بتایا کہ ان کا بیٹا زندہ ہے لیکن بیٹی فوت ہوچکی ہے۔ ان کے بیٹے کا نام اب امرجیت سنگھ ہے جسے ایک سکھ فیملی نے پال پوس کربڑا کیاہے۔بھائی کی اطلاع ملنے کے بعد امرجیت اورکلثوم اخترکا واٹس ایپ پررابطہ کروایاگیا اوربالاخراب کرتارپور راہداری کے وجہ سے دونوں بہن بھائیوں میں ملاقات ممکن ہوسکی ہے۔سردارامرجیت سنگھ وہیل چیئرپرگرودارہ صاحب آئے تھے جبکہ کلثوم اختربھی کمرمیں تکلیف کے باعث سفرنہیں کرسکتیں لیکن بھائی سے ملاقات کی خواہش میں وہ فیصل آباد سے کرتارپورصاحب پہنچ گئیں۔ امرجیت سنگھ نے بتایا جب انہیں پہلی بارمعلوم ہواتھا کہ ان کے حقیقی والدین پاکستان میں ہیں اورمسلمان ہیں تو ان کے لئے یہ بہت حیران کن تھا۔ لیکن پھرآہستہ آہستہ دل کوتسلی ہوئی کہ اس وقت کئی خاندان آپس میں بچھڑگئے تھے۔ دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کے لئے ڈھیروں تحائف بھی لیکرآئے تھے۔کلثوم اخترکے بیٹے شہزاد احمد نے بتایا کہ انہیں خوشی ہے کہ 75 سال بعد ہی سہی ان کی والدہ کو ان کا بچھڑابھائی مل گیا ہے۔ وہ کوشش کریں گے کہ اب ویزالیکر ماموں کے پاس انڈیاجاسکیں۔