مقبوضہ جموں و کشمیر

مودی کا فسطائی نظریہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے خطرہ ہے، رپورٹ

Fdvb0T5WQAECM1Xاسلام آباد 29 ستمبر (کے ایم ایس) ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے تاحیات رکن نریندر مودی کے 2014 میں وزیر اعظم بننے کے بعد بھارت مکمل طور پر ایک ہندو فسطائی ریاست میں تبدیل ہو گیا ہے جہاں مذہبی اقلیتوں اور ہندوتوا لائن سے انکار کرنے والے تمام افراد کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کی جانب سے آج جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت نہ صرف بھارت اور بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں بلکہ اپنی ظالمانہ پالیسیوں کے ناقدین کے خلاف بھی انتہائی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت اختلاف رائے کی آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے اپنی تحقیقاتی ایجنسیوں اور قوانین کا غلط استعمال کر رہی ہے یہاں تک اس نے عدلیہ کو بھی اس حد تک تابع فرمان بنا لیا ہے کہ کہ وہ ہندو انتہا پسندوں کے حق میں فیصلے سنا رہی ہے۔
رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے پر مظالم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ فرقہ پرست بھارتی حکومت بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے۔
کے ایم ایس رپورٹ میں کہا گیا کہ فسطائی مودی حکومت نے اپنے تازہ ترین مسلم مخالف اقدام میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) اور اس سے وابستہ تنظیموں اور اداروں پر کالے قانون یو اے پی اے کے تحت پانچ برس کے لیے پابندی عائد کردی۔ مودی حکومت نے بھارت بھر میںکریک ڈاﺅن کے دوران تنظیم کے سینکڑوں رہنما اور کارکن گرفتار کر لیے ہیں۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ بی جے پی حکومت کی 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموںوکشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کی غیر قانونی کارروائی نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت ایک فسطائی ریاست ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا واحد مقصد اسے مسلم اکثریتی خطے سے مسلم اقلیتی خطے میں تبدیل کرنا ہے۔
رپورٹ میں مودی کے فسطائی نظریے کو جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری مودی اور اس کی ہندوتوا حکومت کے فاشزم سے نمٹنے کے لیے کردار ادا کرے اور مقبوضہ جموںوکشمیر میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورز ی پر اسے کٹہرے میں لائے۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button