اقوام متحدہ کے ماہرین کا خرم پرویز کی فوری رہائی کا مطالبہ
جنیوا 23نومبر(کے ایم ایس)اقوام متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ انسانی حقوق کے معروف کشمیری کارکن خرم پرویز کی گرفتاری اور نظربندی کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں پرشدید اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
Press Release: Marking 1 year in detention today, we demand the immediate release of Kashmiri Human Rights Defender #KhurramParvez.#UAPA must be brought into line with international law.
Read in full 👉 https://t.co/qQn49nnT23@sukanyashantha @pbhushan1 @HRDA_India pic.twitter.com/LDgRH0TToT
— Mary Lawlor UN Special Rapporteur HRDs (@MaryLawlorhrds) November 22, 2022
ماہرین Aua Baldé , Gabriella Citroni, Grazyna Baranowska, Luciano Hazan, Angkhana Neelapaijit,،جبری گمشدگیوںکے بارے میں ورکنگ گروپ، انسانی حقوق کے کارکنوں کی صورت حال کے بارے میں خصوصی نمائندہ میری لالر، دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے خصوصی نمائندےFionnuala Ní Aoláin اور ماورائے عدالت قتل کے بارے میں خصوصی نمائندےMorris Tidball-Binzنے خرم پرویز کی غیر قانونی نظر بندی کو ایک سال مکمل ہونے پر ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہاکہ وہ خرم پرویز کو آزادی سے مسلسل محروم رکھنے پر مایوس ہیں کیونکہ انسانی حقوق کے کارکن کو جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے اور ان کو دستاویزی شکل دینے پر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جارہاہے۔خرم پرویز کو 22نومبر 2021کو دہشت گردی اور دیگر الزامات لگاکر گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں 30نومبر اور 4دسمبر 2021کو دہلی کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا جس نے انہیں بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے سے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ نئی دہلی میں این آئی اے کی خصوصی عدالت نے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت ان کی نظربندی میں پانچ بار توسیع کی ہے۔ماہرین نے کہا کہ ہم بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خرم پرویز سمیت انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا اور انہیں دھمکیاں دینا بند کرے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں معلومات اور ثبوت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں کوفراہم کرتے ہیں۔خرم پرویز اس وقت نئی دہلی کی روہنی جیل میں نظر بند ہیں۔ جرم ثابت ہونے پر انہیں 14سال قید یا سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ ان کے کیس کی اگلی سماعت کل 24نومبر 2022کوہونے والی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر اور ایشین فیڈریشن اگینسٹ انوالنٹیرلی ڈس ایپیرنسزسمیت انسانی حقوق کی چار تنظیموںنے جبری نظربندیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کو شکایت جمع کرائی ہے کہ وہ خرم پرویز کی نظر بندی کے خلاف حکم جاری کر ے اور بھارتی جیل سے انکی فوری رہائی کا مطالبہ کرے۔شکایت میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا کہ خرم پرویز کو انسانی حقوق کی جائز اور پرامن سرگرمیوں پر انتقامی کارروائی میں عمر قید یاسزائے موت سنائی جاسکتی ہے۔ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر کے سیکرٹری جنرلGerald Staberock نے کہا کہ خرم پرویز کی نظربندی ایک جبری نظر بندی ہے جس میں تمام قانونی معیارات کی واضح خلاف ورزی کی گئی ہے جس کی بھارتی ریاست پابندہے۔انہوں نے کہاکہ ایک سال سے زائد عرصے سے ملکی عدالتیں قانون کی حکمرانی برقراررکھنے اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی متعدد عالمی تنظیموں نے مشترکہ طور پر خرم پرویز کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلے میںانسانی حقوق کی12 تنظیموں کے دستخط شدہ ایک بیان میں جو لندن میں قائم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ویب سائٹ پر موجود ہے، بھارت پر زور دیا گیاہے کہ وہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے کام کو جرم قراردینا بند کرے۔ بیان میں کہا گیا کہ بھارتی حکام کو اس کے بجائے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استثنیٰ ختم کرنا چاہیے جن کو انسانی حقوق کے کارکنوں نے خاص طور پر جموں و کشمیر میں بڑی بہادری سے بے نقاب کیا ہے۔ بیان میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ بھارتی حکام نے پرامن احتجاج کو روکنے اور معلومات تک رسائی کو محدود کرنے کے لیے میڈیا کی آزادی پر بھی قدغن لگا دی ہے اور انٹرنیٹ کو معطل کر دیا ہے ۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا کہ اس کے شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں جس سے جموں وکشمیرمیں جسے اگست 2019میں بھارت کی طرف سے خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے پہلے ہی اختلاف رائے کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کا سامنا ہے، شہری آزادیاں مزید متاثر ہورہی ہیں۔