گھریلو تشدد کا سامنا کرنے والی کشمیری خواتین جائیں تو جائیں کہاں؟
سرینگر09مارچ(کے ایم ایس) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی جانب سے خواتین کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے علاوہ گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور متاثرہ خواتین کی سننے والا کوئی نہیں۔
بھارتی حکومت نے خواتین و بچوں کے حقوق کے تحفظ کے ریاستی کمیشن کو 5اگست 2019کو دفعہ 370کی منسوخی کے بعد ختم کر دیا تھا اور اس کے بعد سے خواتین کے لیے ایسا کوئی فورم نہیں جہاں وہ اپنی شکایات درج کرا سکیں۔ صنفی مسائل پر کام کرنے والے ماہرین، کارکنان اور این جی اوز کا کہنا ہے کہ کمیشن ان پولیس اسٹیشنوں کا متبادل تھا جہاں خواتین اپنی شکایات درج کرانے سے ہچکچاتی ہیں۔ ان کا کہناہے کہ بھارت کے قومی کمیشن برائے خواتین کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ مسائل کے حل کے لئے کشمیری خواتین کا نئی دہلی پہنچنا بہت ہی مشکل کام ہے۔انہوں نے کہاکہ اگرچہ آن لائن شکایات درج کرانے کی سہولت بھی موجود ہے لیکن ہرخاتون ایسا نہیں کرسکتی اور خواتین کے چند تھانے تمام مقدمات کے لئے کافی نہیں ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں خواتین کے کمیشن کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان خواتین کو بھی جنہوں نے 5اگست 2019سے پہلے کمیشن میں کیس درج کرائے تھے، بے یارو مددگارچھوڑ دیا گیا ہے اور وہ اب جائیں توجائیں کہاں؟مقبوضہ جموں وکشمیرمیں WomComMattersکے سربراہ دانش ظہور نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ خواتین کے کمیشن کی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ علاقے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ خواتین کے خلاف تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ خواتین کمیشن خالصتا ایک سماجی ادارہ ہے اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ ادارہ خاص طور پر کم مراعات یافتہ خواتین کے لیے جنہیں مختلف مسائل کا سامنا ہے، بہت اچھا کام کر رہا تھا۔ دانش ظہور کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیر اور لداخ میں خواتین کو شدیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے کیونکہ وہ اپنے مسائل حل کرانے کے لیے نئی دہلی کے بھارتی کمیشن میں نہیں جا سکتیں۔