بھارت میں دلت خواتین کو آبروریزی اور بھوک کے خطرات کا سامنا ہے، سروے
اسلام آباد18اکتوبر(کے ایم ایس)
بھار ت کے انتہائی پسماندہ طبقے دلت کو انتہائی سنگین نوعیت کے انسانی حقوق بحران کا سامنا ہے جبکہ ان کی خواتین عصمت دری اور بھوک کا شکار ہیں۔ بھارت کے ذات پات کے پیچیدہ نظام میں دلتوںکا شمار سب نچلی ذات میں ہوتاہے جنہیں صرف کچی آبادیوں میں رہنے کی اجازت ہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق تھامسن رائٹرز فانڈیشن نے 2018میں خواتین کے مسائل پر 550ماہرین کے سروے میں ، بھارت کو خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے ساتھ ساتھ گھریلو کام کیلئے انسانی سمگلنگ ، جبری مشقت ، جبری شادیوں اور جنسی غلامی کے لیے سب سے خطرناک ملک قرار دیا تھا ۔سروے میں کہا گیا ہے کہ بھارت ثقافتی روایات کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک ملک بھی ہے جو کہ خواتین پر اثر انداز ہوتا ہے ، سروے میں تیزاب حملوں ، خواتین کے جنسی اعضا کی کٹائی ، بچپن کی شادی اور جسمانی استحصال کا حوالہ دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ سات سال قبل اسی قسم کے سروے میں بھارت کو خواتین کے لیے چوتھا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔60 فیصد سے زیادہ بھارتی خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں کیونکہ انہیں کم سے کم غذاء میسر ہوتی ہے ، بڑھتی ہوئی بھوک کی سطح سب سے زیادہ پسماندہ افراد کو متاثر کرتی ہے۔ دی پیپل آرکائیو آف رورل انڈیا کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ سال کورونا وبا کے دوران دیہی بھارت میں پچاس فیصد گھروں کو لاک ڈان کے نفاذ کے بعد سے کھانے کی تعداد کم کرنے پر مجبور کیا گیا۔ تقریبا 68فیصد گھرانوں نے اپنے کھانے میں اشیا کی تعداد کم کر دی تھیں ۔تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دلت خواتین اونچی ذات کی عورتوں سے کم عمر میں انتقال کر جاتی ہیں کیونکہ غذائیت اور صحت ہمیشہ ان کے لیے ایک جدوجہد رہی ہے۔مطالعے سے پتہ چلا کہ بھارت میں 56 فیصد دلت اور 59 فیصد قبائلی خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں جبکہ قومی اوسط 53 فیصد ہے۔2016 میں ، بھارت 180 ممالک میں 170 ویں نمبر پر تھا جہاں خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دلت خواتین اونچی ذات کی خواتین کے مقابلے میں 15 سال کم عمر میں ہی انتقال کر جاتی ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا نے ہمیشہ بھارت میں اقلیتوں کی خواتین کی ابتر حالت زار کی طرف سے آنکھیں بند رکھی ہیں۔ جس نے انسانی حقوق کے تشدد کو ایک تباہ کن سطح تک بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جو اسے انسانی المیے میں تبدیل کرتا ہے۔اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کی متعدد رپورٹوں کے باوجود بھارت زمینی حقائق سے انکار کرتا رہا اور اس سلسلے میں بین الاقوامی ذمہ داریوں کو بھی نظر انداز کرتا رہا۔سیکورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت نے آر ایس ایس کے نیو نازی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے خود کو اپنے ہی عوام اور اقلیتوں کے خلاف کر دیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی برادری کو خواتین کیخلاف بھارتی فاشسٹ حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین نوعیت کی خلاف ورزیاں رکوانے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔