مظلوم کشمیری انصاف کے منتظر
محمد شہباز
مقبوضہ جموں وکشمیرمیں عوام فسطائی مودی حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک اور ناانصافی کا سامنا کر رہے ہیں۔ کشمیری عوام روزانہ کی بنیاد پر بھارتی ظلم وجبراور خونریزی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔کشمیری عوام گزشتہ7 دہائیوں سے زائد عرصے سے انصاف سے یکسر محروم ہیں۔ مودی حکومت ڈھٹائی اور بے شرمی سے کشمیر ی عوام کے ہر حق کو پامال کر رہی ہے۔مودی اور اس کے حواری مقبوضہ جموں وکشمیر میںاپنی بربریت اور قتل و غارت گری پر پردہ ڈالنے کیلئے صحافت اور صحافیوں کا گلہ گھونٹنے کیلئے مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔جس کی تازہ ترین مثال معروف کشمیری صحافی عرفان معراج کی گرفتاری ہے۔کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے خلاف منظم کریک ڈاون کے ایک حصے کے طور پربدنام زمانہ NIA اور SIU کا استعمال ہے ۔جس کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی مطالم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرایا جائے ،عرفان معراج سے قبل آصف سلطان، سجاد ڈار،فہد شاہ،سجاد گل اور عبدالاعلی فاضلی کوبھی گرفتار کیا جاچکا ہے۔جبکہ مسرت زہرہ،ہلال میر،غلام قادر جیلانی،گوہر گیلانی،پیرزادہ عمر،انیس زرگر،کامران یوسف،مدثر احمد ،طاہر حسین،اشفاق تانترے،محمد امین کاملو،مشتاق احمد،مزمل متو،عاقب جاوید،منان گلزار،سلمان شاہ،پیر زادہ عاشق اور مختیار ظہور کو پولیس تھانوں میں بلاکر انہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔جبکہ ثناء ارشاد متو اور آکاش پرویز کو بیرون ریاست سفر کرنے سے روک دیا گیا ۔
بھارت میں مودی کی ہندوتوا حکومت مقبوضہ جموں و کشمیرمیں ذرائع ابلاغ کو مسخر کرنے کے لیے آہنی ہاتھوں کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے اور عرفان معراج کی گرفتاری اسی سخت ترین اور آہنی پالیسی کی تازہ ترین مثال ہے۔ جس سے 20 مارچ 2023 کو سرینگر میں گرفتار کیا گیا۔بدنام زمانہ NIA نے عرفان معراج کی گرفتاری کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ گرفتاری عرفان معراج کے جموں اور کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی (JKCCS) کے ساتھ تعاون کی وجہ سے عمل میں لائی گئی۔ ایک تنظیم جس کی سربراہی جیل میں بند انسانی حقوق کے کشمیری کارکن خرم پرویز کر رہے ہیں۔جو 2021 سے جرم بیگناہی کی پاداش میں بھارتی جیل میں ہیں ۔ان پر مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے خلاف جاری جدوجہد آزادی کی حمایت کرنے کا الزام لگا کر بدنام زمانہ قانون UAPA عائد کیا گیا ہے۔ اب یہی الزام عرفان معراج پر بھی لگایا گیا ہے کہ اس نے جموں اور کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیموں ،کارکنوںاورصحافیوں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی میری لالرکی طرف سے عرفان معراج کی گرفتاری پراظہار تشویش کے باوجودبھارت نے انہیںمسلسل نظربندکر رکھا ہے۔اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ میری لالر نے ٹویٹ کر کے عرفان معراج کی گرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔جبکہ صحافتی تنظیموں پریس کلب آف انڈیا، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا اور جرنلسٹ فیڈریشن آف کشمیر نے بھی ان کی گرفتاری پر تنقید کی۔ایڈیٹرز گلڈنے کشمیری صحافیوں کے خلاف کالے قانون UAPAکے غیرضروری استعمال پر گہری تشویش کا اظہارکیا۔ گلڈ نے ریاستی قابض انتظامیہ پر زور دیاہے کہ وہ جمہوری اقدار کا احترام کرے۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے کہا کہ عرفان معراج کی گرفتار ی سے ظاہرہوتا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری بھارتی کاروائیوں کی تنقیدی رپورٹنگ پر صحافیوں کی گرفتاری کا رحجان جاری اور اس میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں میڈیا کی آزادی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں کہا کہ کشمیری صحافی عرفان معراج کی دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتاری ایک خطرناک اقدام ہے۔ یہ گرفتاری جموں و کشمیر کے خطے میں طویل عرصے سے جاری انسانی حقوق، میڈیا کی آزادی اور سول سوسائٹی کے خلاف کریک ڈائون کی ایک اور مثال ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا بورڈ کے چیئرمین آکار پٹیل نے ایک بیان میں کہاکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی اظہار اور تنظیم سازی کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری ہے۔عرفان معراج جیسے انسانی حقوق کے کارکنوں کی حوصلہ افزائی اور حفاظت کی جانی چاہیے، نہ کہ ظلم و ستم کا نشانہ بنانا چاہیے۔ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیاء مینا کشی گنگولی اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے کشمیری صحافیوں کی گرفتاریوں اور انہیں ڈرانے دھمکانے کی کاروائیوں کو آزادی اظہار رائے کی سنگین خلاف ورزیوں سے تعبیر کیا ہے۔
پریس کلب آف انڈیا نے عرفان معراج پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانونUAPA کے نفاذ کو "آزادی اظہاررائے کی خلاف ورزی” کی عکاسی قرار دیا۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے اپنے انٹرویوز اور بیانات میں کہا کہ عرفان معراج کو مقبوضہ جموں و کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بشمول جعلی جھڑپوں میں لوگوں کا قتل، کشمیریوں پر حملوں اور آرٹیکل370 اور 35اے کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے میں لکھنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ عرفان معراج ان بہت سارے صحافیوں میں سے ایک ہیں جنہیں قابض بھارتی حکام نے گزشتہ ایک برس کے دوران مقبوضہ جموں و کشمیر سے سچ بولنے پر گرفتار کیا ہے، مقبوضہ جموں وکشمیر کے صحافیوں کو بھارت کے ہاتھوں غیر قانونی حراستوں کا سامنا ہے اور وہ طویل عرصے سے ریاستی جبر کا شکار ہیں ۔جس کی ابتداء بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 میںغیر قانونی اور یکطرفہ طور پر مقبوضہ جموںو کشمیرکی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد عمل میں لائی گئی ہے اور اب ان ظالمانہ کاروائیوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ لہذا عالمی صحافتی تنظیموں کے علاوہ انسانی حقوق کے ادارے آگے آئیں اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافتی آزاد ی کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔جو فسطائی مودی کے حملوں کی زد میں ہے۔
جہا ں مقبوضہ جموں وکشمیر میں مودی کی بربریت سر چڑھ کر بول رہی ہے وہیں بھارت میں اقلیتوں باالخصوص مسلمانوں کی حالت زار اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔بھارتی مسلمانوں کو مختلف حیلے بہانوں سے تختہ مشق بنانے کا سلسلہ گو کہ طویل عرصے سے جاری تھالیکن 2014 ء میں مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بھارتی مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا جاچکا ہے۔انہیں کبھی گائے کا گوشت گھر میں رکھنے کے شبے میں گھیر کر جان سے ماردیا جاتا ہے تو کبھی مویشی ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے دوران قتل کیا جاتا ہے۔ ہندو تہواروں کے دوران جان بوجھ کر مسلم علاقوں سے جلوس اورپھر ان جلوسوں میں مساجد کے قریب آونچی آواز میں موسیقی بجانا ہندو انتہا پسندوں کا معمول بن چکا ہے تاکہ مسلمانوں کی جانب سے اعتراض پر انہیں تختہ مشق بنایا جاسکے۔حال ہی میں بھارت میں ہندو تہوار رام نوامی پر درجنوں مسلمانوں کو خاک وخون میں نہلایا گیا۔جس کے نتیجے میں اب تک تین مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ مسلمانوں کی جائیداد و املاک،رہائشی مکانوں،دکانوں اور حتی کہ قبرستانوں تک آگ لگا کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیا گیا۔
بہار میں ہندوتوا ہجوم نے تاریخی مدرسہ عزیزیہ کو نذر آتش کر دیا۔ جس کے نتیجے میں4500 سے زائد کتابیں راکھ ہو گئیں۔فسطائی مودی کی آبائی ریاست گجرات میں بھی ہندو توا غنڈوں نے پرتشدد کارروئیاںکیں۔ گزشتہ برس بھی ہندوں نے رام نوامی کے موقع پر بھارتی دارالحکومت نئی دہلی، کرناٹک ، اترپردیش اور جھار کنڈ وغیرہ میں مسلمانوں پر حملے کرکے ان کے گھر اور دیگر املاک نذر آتش کی تھیں۔بھارت میں نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے دوران ہندو تہواروں میں اب سینکڑوں لوگ تلواروں، بندوقوں اور بھالوں کے ساتھ اشتعال انگیز نعروں اور سانڈ سسٹم پر موسیقی بجاتے ہوئے مسلم علاقوں میں مارچ کرتے ہیں۔مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بی جے پی پر اس تشدد کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ 2002 میں ریاست گجرات کے وزیر اعلی مودی کی حکومت میں مسلم کش فسادات کے بعد 2014 میں ان کے بھارتی وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد سے ہندو انتہا پسند گروپوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔بھارت میں کانگریس اور شیو سینا کے سربراہ ادھو ے ٹھاکر نے رام نوامی کے دوران جھڑپوں پر بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مودی کی بی جے پی انتخابات سے پہلے یا حزب اختلاف کی حکومت والی ریاستوں میں ‘فسادات کو بھڑکانے میں ملوث ہے۔ کانگریس سربراہ ملکھ ارجن کھڑگے نے کہا، "جب بی جے پی کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کمزور ہو رہی ہے، تب وہ فرقہ وارانہ فسادات بھڑکاتی اور لوگوں کو پولرائز کرتی ہے۔شیو سینا کے سنجے راوت نے کہا، "بنگال میں تشدد منصوبہ بندہے۔جہاں بھی انتخابات قریب ہیں، وہاں فسادات رونما ہوتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بی جے پی-آر ایس ایس اور اس کے ہندوتوا گروپ 2024 میں آنے والے اسمبلی اور بھارتی پارلیمنٹ انتخابات جیتنے کے لیے اس طرح کے مسلم مخالف تشدد کروا رہی ہیں۔
دنیا کواب اپنی مجرمانہ خاموشی ترک کرکے مظلوم کشمیری عوام کی فریاد سن کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ عالمی برادری کی یہ مجرمانہ خاموشی صرف بھارت کو کشمیری عوام کے خلاف منظم اور منصوبہ بندطریقے سے ظلم و ستم ڈھانے کی ترغیب دے رہی ہے۔البتہ کوئی بھی جبر کشمیری عوام کو لاکھوں قربانیوں سے مزین اپنی جدوجہد آزادی کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہونے دے گا۔ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ انصاف کے اصولوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں جاری قتل وغارت اورخونریزی کو ختم کرنے کا واحد راستہ ہے۔جس کا وعدہ بھارت نے عالمی برادری کو گواہ ٹھرا کر اہل کشمیر کے ساتھ کیا ہے۔