بھارت:بہار میں کمسن مسلمان لڑکی کو دو سال تک جنسی زیادتی کانشانہ بنایاگیا
نئی دہلی: بھارتی ریاست بہار کے ضلع سہرسہ میں ایک اسکول ڈائریکٹر کے ہندو بیٹے نے دو سال تک ایک کمسن مسلمان طالبہ کو کئی بار جنسی زیادتی کا نشاہ بنایا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب لڑکی ہاسٹل میں گھبراہٹ کا شکارہوئیں اور وہ نیند میں مدد کی التجا کرتی رہیں۔ جس کے بعدڈاکٹروں نے اس کوشدیدذہنی دبائو کا شکارقراردیا۔سولہ سالہ لڑکی نے بتایا کہ اسکول کے ڈائریکٹر کے بیٹے سمراٹ وشواس عرف سومیت وشواس کی اسکول کی پرنسپل انیتا مشرا مدد کررہی تھیں اوراسے تحفظ فراہم کررہی تھیں جب کہ وہ اسکول کے ایک کلاس روم میں اسے زیادہ کا نشانہ بنارہاتھا۔ انیتامشرا لڑکی کو کلاس روم یا لائبریری میں لے آتی، لائٹیں بند کر دیتی اور دروازے کو باہر سے بند کر دیتی تھیں۔ سومیت وشواس جو پہلے سے ہی کمرے کے اندر موجود ہوتاتھا، لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا تھا۔ لواحقین اور اس کے رشتہ داروں کے مطابق انیتا مشرا باہر حفاظت کے لئے کھڑی رہتی تھی۔ مذکورہ لڑکی جو اس وقت شدید ذہنی دبائو اور ڈپریشن کاشکارہے، شانتی نکیتن شکشا سنستھان میں زیر تعلیم تھی۔ متاثرہ لڑکی نے صحافیوں کو بتایاکہ یہ تکلیف دہ واقعات 2017میں اس وقت شروع ہوئے جب وہ چھٹی جماعت میں تھیں اور 2019میں مختلف اسکولوں میں منتقل ہونے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ انہوں نے کہاکہ پہلی بار 2017میں انیتا میڈم نے مجھے خالی کلاس روم میں بلایا،خود باہر گئی اور کمرے کو باہر سے لاک کر دیا جبکہ سمراٹ وشواس پہلے سے ہی اندر موجود تھا اوروہ مجھے نامناسب طریقے سے چھونے لگا۔ پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ وہ میرے ساتھ کیا کر رہا ہے لیکن بعد میں اس نے میرے کپڑے اتارے اور میری عصمت دری کی۔وہ ویڈیو بنا رہا تھا اور جب میں نے مزاحمت کی تو اس نے مجھے دھمکی دی کہ وہ میری ویڈیو وائرل کر دے گا اور سب کو بتائے گاکہ اس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔ متاثرہ لڑکی نے کہا کہ وشواس اسے کہتاتھا کہ کوئی اس پر یقین نہیں کرے گا اور اگر اس نے جنسی زیادتی کے بارے میں بتایا تو اس کے والدین اسے اپنی تعلیم جاری رکھنے نہیں دیں گے۔انہوںنے کہاکہ انیتا میڈم اس گھنائونے جرم میں معاون اور شریک تھی اور وہ دوسری لڑکیوں کے ساتھ بھی ایسا کرتی تھی لیکن کسی نے کبھی اس کے بارے میں بات نہیں کی کیونکہ وہ اور وشواس ہم سب کو دھمکیاں دیتے تھے۔ میں اپنی پڑھائی بند ہونے سے بھی خوفزدہ تھی ، اس لیے میں نے کبھی کسی کو کچھ نہیں بتایا۔انہوں نے کہاکہ مجھے پیٹ میں درد اور چکر آتے اور صحت کے دیگر مسائل رہتے تھے لیکن خوف کی وجہ سے میں نے خود ہی سب کچھ برداشت کیا۔باالآخر2019میں مذکورہ لڑکی نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ وہ ا س کا اسکول تبدیل کر لیں۔ انہوں نے اسے ایکلویہ سنٹر میں داخل کرایا۔ فی الحال وہ ایک پرائیویٹ ادارے میں مزید تعلیم حاصل کر رہی ہے اور پٹنہ میں لڑکیوں کے ہاسٹل میں رہتی ہیں۔23اگست کو اسے شدید گھبراہٹ ہوئی اور اسے فوری طور پر نوبل ایمرجنسی ہسپتال لے جایاگیا جہاں اسے داخل کرایا گیا۔ 24 اگست کو تشخیص کے بعد اسے نفسیاتی علاج کے لیے بھیجا گیا جہاں ماہر نفسیات نے کہاکہ وہ شدید ڈپریشن اور صدمے سے دوچار ہے۔ڈاکٹروں نے اہل خانہ کو بتایا کہ تشخیص کے دوران لڑکی نے اپنے جنسی استحصال کا ذکر کیا اور کہا کہ سال 2017سے 2019تک اس کے اسکول کے دنوں میں اس کے ساتھ متعدد بار زیادتی کی گئی۔لڑکی کے بھائی منور کا کہنا تھا کہ اس نے یہ سب کچھ خود ہی برداشت کیاہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس پر کیا گزری ہے۔ لیکن اب جب اس نے اس کے بارے میں بات کی ہے تو وہ یہ کبھی ہوش میں، کبھی نیند میں بتاتی رہتی ہے۔