کشمیر اور فلسطین کے حل طلب دیرینہ تنازعات کی وجہ سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہے
اسلام آباد: اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ تنازعات دنیا کے 2 دیرینہ حل طلب تنازعات کشمیر اور فلسطین کی وجہ سے آج عالمی امن کو خطرہ لاحق ہے ۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں وکشمیر کاتنازعہ جنوبی ایشیاء میں جبکہ اسرائیلی زیر تسلط فلسطین مشرق وسطی میں کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے اور بھارت اور اسرائیل کشمیریوں اور فلسطینیوں کو انکا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت دینے سے انکار کررہے ہیں جس کی ضمانت اقوا م متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1948میں منظور کی گئی اپنی قرارداد میں فراہم کی تھی ۔کشمیری اور فلسطینی دونوں گزشتہ 75 برس سے غیر ملکی قبضے کے خلاف حق خود ارادیت کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور دونوں مقبوضہ علاقوں کے عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمدکے منتظر ہیں۔ قابض بھارت اور اسرائیل کشمیر اور فلسطین میں بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں، جو جدید تاریخ میں نسل کشی بدترین مثال ہے۔بین الاقوامی قانون کے مطابق کشمیریوں اور فلسطینیوں دونوں کو غیر ملکی قابضو ں کے خلاف مزاحمت کا حق حاصل ہے لیکن جب وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت قابض قوتوں کے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہیں تو عالمی طاقتیں اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے قابض طاقتوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر بھارت اور اسرائیل کے درمیان قریبی فوجی تعاون انسانیت اور عالمی امن کیلئے ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔ کشمیر اور فلسطین دونوں حل طلب دیرینہ تنازعات ہیں جوکئی دہائیوں سے جاری ہیں۔تنازعہ کشمیر نے 1947میں تقسیم برصغیرکے بعدجنم لیا جبکہ اسرائیل-فلسطین تنازعہ کی ابتدا 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے اوائل میں ہوئی جب انگریزوں نے فلسطین کی سرزمین پر مشرق وسطی کے قلب میں ایک نئی ریاست تشکیل دی۔یہ دونوں تنازعات بین الاقوامی طاقتوں ، مختلف ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جومختلف مواقع پر ان کے حل کیلئے ثالثی یاکسی قسم کا کوئی کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تاہم قابض قوتوں کی ہٹ دھرمی ان تنازعات کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، جو آج مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں نہ ختم ہونے والے ظلم و تشدد، جنگوں، مزاحمت اور سرحدی جھڑپوں کے نتیجے میں عالمی امن کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔کشمیر اور فلسطین کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اقوام متحدہ کی اپنی قراردادوں پر عمل درآمد میں ناکامی کا نتیجہ براہ راست جنوبی مغربی اور مشرق وسطیٰ کے عدم استحکام کی صورت میں نکلا ہے۔