دس لاکھ سے زائد بھارتی فوجی کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے میں مصروف عمل ہیں: رپورٹ
اسلام آباد: غیر قانونی طور پربھارت کا زیر قبضہ جموں و کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ فوجی جمائو والا علاقہ ہے کیونکہ 10لاکھ سے زائد بھارتی فوجی کشمیریوں کی حق خودارادیت کی تحریک کو ظالمانہ طریقے سے دبانے میں مصروف عمل ہیں۔
کشمیرمیڈیاسروس کی طرف سے آج جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سفاکانہ فوجی جمائو نے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں ایک انسانی بحران پیدا کر دیا ہے کیونکہ جب سے27اکتوبر 1947کوبھارت نے غیرقانونی طورپر سرینگر میں اپنی فوجیںاتاریں، یہ خطہ بھارتی فوج اور پولیس کے محاصرے میں ہے ۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ حریت قیادت کو جیلوں میں ڈالاگیا ہے جبکہ بھارتی فورسز نے ہزاروں کشمیریوں کو جن میں زیادہ تر نوجوان ہیں، پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یواے پی اے کے تحت نظربند کررکھا ہے۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ کسی بھی قوم پر زیادہ دیر تک طاقت کے بل پر حکمرانی نہیں کی جا سکتی یہی وجہ ہے کہ کشمیری عوام اپنے پیدائشی حق خودارادیت کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کی سرپرستی میں مودی حکومت کشمیریوں کو تمام حقوق سے محروم کر رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کشمیریوں کی پرامن سیاسی تحریک اور سرگرمیوں کو روک کر سفاکانہ کارروائیوں اور فوج کی بھاری موجودگی اورکالے قوانین کے تحت ظلم و بربریت سے جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ مودی حکومت اور اس کی پولیس اور ہندوتوا نظریے کی حامل غیر کشمیری بیوروکریسی اپنی کشمیر دشمنی اور فوجی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کو زیر نہیں کر سکتیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فورسز نے جموں و کشمیر کو اس کے مکینوں کے لیے ایک کھلی جیل بنا دیا ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ 5اگست 2019کو مودی کی زیر قیادت ہندوتوا حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے کشمیریوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے مطالبے کو فوجی طاقت سے دبایا نہیں جا سکتا۔رپورٹ میں کہاگیاکہ مقبوضہ جموں وکشمیرکی موجودہ سیاسی صورتحال اور کشمیری رہنمائوں اور نوجوانوں کی جبری نظربندیاں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی توجہ کا تقاضا کرتی ہیں۔رپورٹ میںکہا گیا کہ جب تک تنازعہ کشمیر کو کشمیری عوام کی مرضی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔