انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے کشمیریوں کی جی پی ایس ٹریکر کے ذریعے نگرانی کی مذمت
نئی دلی:انسانی حقوق کے کارکنوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں "دہشت گردی” کے نام نہاد الزامات کا سامنا کرنے والے ایک شخص کے جسم پر گلوبل پوزیشننگ سسٹم (جی پی ایس)ٹریکر لگانے پر بھارتی قابض حکام کی شدیدمذمت کی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق انسانی حقو ق کے کارکنوں نے الجزیرہ ٹی وی نے انٹرویو میں کہاہے کہ جی پی ایس ٹریکر ‘ورچوئل قید’کی ایک شکل ہے اور اس شخص کویہ قید بھگتنی پڑتی ہے جسے سزا تو نہیں سنائی گئی ہے تاہم اس کے خلاف مقدمہ زیر سماعت ہے ۔ایک کشمیری اور امریکہ کے میساچوسٹس کالج آف لبرل آرٹس میں انتھرو پولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر محمد جنید نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ لوگوں کے جسم پر GPSٹریکر لگانابھی قید کی ایک شکل ہے ۔انہوں نے کہاکہ ٹریکر لگانے کا مقصد جب لوگوںکو بے قصور ثابت ہونے تک مجرم تصور کرنا ہے جوکہ انتہائی ظلم ہے ۔ انہوں نے مزیدکہا کہ سب سے بری بات یہ ہے کہ مقبوضہ علاقے میں سیاسی اختلاف رائے کو اب ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکیومینٹیشن سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر روی نائر نے الجزیرہ سے گفتگو میں دلیل دی کہ کسی شخص کے جسم پر جی پی ایس ٹریکر لگانے سے نقل و حرکت اور رازداری کے حق سمیت اسکی بنیادی آزادیوں کی خلاف ورزیوں کے مسائل جنم لے سکتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ جی پی ایس ٹریگنگ کے ذریعے ریاست عوام کی سیکورٹی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن دوسری طرف، اس کا نشانہ بننے والوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیاجانا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک مانیٹرنگ کے استعمال سے بہت سے اخلاقی، قانونی اوردیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔انہوں نے مزیدکہاکہ جی پی ایس کے زریعے نگرانی سے حد سے زیادہ ریگولیشن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خدشات پیدا ہوتے ہیں ۔الجزیرہ کی رپورٹ میں ایک بزرگ شخص کابھی ذکر کیا گیاہے جو بھارت میں جی پی ایس ٹریکنگ کا پہلا شکار بنا تھا ۔ رپورٹ میںکہا گیاکہ ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے سرینگر کے رہائشی 65 سالہ غلام محمد بٹ کی جی پی ایس کے ذریعے ٹریکنگ کی جارہی ہے ۔غلام بٹ کے وکیل بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی کے قریبی ساتھی تھے۔ انہیں 2011میں سرینگر سے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون کے تحت حریت کانفرنس کی سرگرمیوں کی مالی معاونت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں نئی دلی کی ایک جیل میں رکھا گیا تھا اور گزشتہ ہفتے انہیں ضمانت پر رہاکیاگیا ۔تاہمجموں میں بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کی عدالت نے ان کی ضمانت کی شرائط میں 24گھنٹے انکی سرگرمیوں پر نظر رکھنابھی شامل ہے اورانہیں اپنی رہائش گاہ تبدیل کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔عدالتی حکم میں مزیدکہا گیا ہے کہ پولیس سپرنٹنڈنٹ سرینگر انکی نقل و حرکت کو ٹریک کرے گا ۔مقبوضہ کشمیر میں ایک پولیس افسر نے الجزیرہ کو بتایا کہ جی پی ایس ڈیوائس کے ذریعے قابض حکام مذکورہ شخص کی سرگرمیوں پر نظررکھتے ہیں ۔