مضامین

امریکہ میں سکھ رہنما کے قتل کی بھارتی سازش اور بھارت کو عالمی سطح پر ہزیمت

shahbazمحمد شہباز
رواں برس جون میں ایک سکھ کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کا وینکورو میں بابا گرو نانک سکھ گردوارے کے باہر دن دیہاڑے قتل نے عالمی سطح پر نئی گھتیوں کو سلجھایا ہے ۔اس قتل نے کینیڈا میں سیکورٹی اداروں پر سخت سوالات کھڑے کیے جس پر خود بھی کینیڈین حکومت شرمندگی محسوس کررہی تھی۔مذکورہ سکھ رہنما کے قتل کی تحقیقات کا دائرہ جب بڑھایا گیا تو اس کے تانے بانے بھارت کی بدنام زمانہ ایجنسی RAW سے ملے اور کینیڈا میں بھارتی سفارتخانے میں RAW کا آفیسر پون کمار اس میں ملوث قرار پایا۔گو کہ کینیڈا نے بڑی مہارت سے اس قتل کا سراغ لگالیامگر مکمل خاموشی اختیار کرلی یہاں تک ستمبر میں بھارت میں جی20 سربراہی اجلاس بھی منعقد ہوا اور اس اجلاس میں کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو بھی شریک تھے۔سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ جسٹن ٹروڈو نے اجلاس کے دوران ہی سائیڈ لائنز پر اپنے بھارتی ہم منصب مودی کو ہردیپ سنگھ نجرکے قتل اور اس قتل میں RAW کے ملوث ہونے سے اگاہ کیا۔بھارت نے کینیڈین وزیر اعظم کو ہلکا لیا اور جس جہاز میں اس نے واپس جانا تھا اس سے بار بار روکنے کی کوشش کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ٹروڈو کا جہاز چار روز کی تاخیر کے بعد اڑان بھر سکا۔واپسی کے ساتھ ہی جسٹن ٹرڈو نے کینیڈین پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں سکھ رہنما کے قتل کا بھانڈا پھوڑا تو پوری دنیا میں ایک بھونچال سا آگیا ۔جسٹن ٹروڈو نے بھارت کا براہ راست نام لیا اور کینیڈا میں بھارتی سفارخانے میں موجود RAW کے آفیسر پون کمار کو اس قتل میں ملزم گردانا۔اس بیان کے بعد دونوں ممالک میں سفارتی کشیدگی میں اضافہ ہوا۔دونوں طرف سفارتکاروں کو نکالا گیا اور ویزہ کی سہولت معطل کی گئی۔جسٹن ٹروڈو بار بار بھارت سے سکھ رہنما کے قتل میں تعاون کرنے پر زور دیتا رہا مگر بھارت ٹس سے مس نہیں ہوااور وہ مسلسل ڈھیٹ پن،ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا رہا۔ابھی ہردیپ سنگھ نجر کے قتل پر گرد پوری طرح بیٹھ بھی نہ سکی کہ امریکہ میں موجود سکھوں کی عالمی تنظیم سکھز فار جسٹس کے جنرل قونصلر گرو پتونت سنگھ پنوں کو بھی قتل کرنے کی سازش بے نقاب کی گئی۔امریکہ نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور بھارت کو قتل کی سازش میں ملوث افراد کو پیش کرنے اور اس سلسلے میں بھرپور تعاون کرنے کی ہدایت کی۔اس واقعے نے بھارت کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا اور بھارت اپنے ایک دیوار کے ساتھ لگا محسوس کرنے لگا۔اس ساری کاروائی کا بھانڈا برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے پھوڑا کہ کس طرح بھارت غیر ملکی سرزمین پر لوگوں کو قتل کرواتا ہے۔
ایک بھارتی سرکاری اہلکار نے سکھ رہنما گروپتونت سنگھ پنوں کو امریکی سرزمین پر قتل کرنے کی ناکام سازش کی ہدایت کی جس پر امریکی محکمہ انصاف نے30 نومبر کو بھارتی شہری نکھل گپتا پر گروپتون سنگھ پنوں کے قتل کی سازش کا حصہ بننے کا الزام عائد کیا تھا۔امریکی وفاقی استغاثہ کا کہنا ہے کہ نیو یارک سٹی میں سکھ کارکن گروپتونت سنگھ پنون کو قتل کرنے کی سازش بھارتی حکومت کے ایک اہلکار نے رچی۔امریکی فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ ایک شناخت شدہ بھارتی سرکاری ملازم نے نیو یارک شہر میں سکھ کارکن گروپتونت سنگھ پنون کو قتل کرنے کی سازش کی قیادت کی۔جس پر فنانشل ٹائمز نے لکھا ہے کہ امریکی فرد جرم سے پتہ چلتا ہے کہ گروپتون سنگھ پنون کو قتل کرنے کی سازش اور کینیڈا میں ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے درمیان تعلق ہے۔امریکی سرزمین پر گروپتون سنگھ پنون کے قتل کی سازش کی خبر 2 ماہ بعد آئی ہے جب کینیڈا میں بھارتی ایجنٹوں نے جون میں ہردیپ سنگھ نجر کو قتل کیا تھا۔امریکی سرزمین پر گروپتون سنگھ پنون کو قتل کرنے کی بھارتی سازش ایسے وقت میں منظر عام پر آئی جب بائیڈن انتظامیہ چین کے خلاف نئی دہلی کو کھڑا کرنے اور اس مقصد کیلئے سہارا دینے کی کوشش کر رہی ہے۔سرکاری سطح پر امریکی انکشافات کے بعد سکھ کارکن گروپتونت سنگھ پنون نے اپنے بیان میں کہا کہامریکی سرزمین پر انہیںجان سے مارنے کی کوشش بھارت کے خلاف بین الاقوامی دہشت گردی کا ایک کھلا کیس ہے۔لہذابھارتی اہلکار کی جانب سے امریکی سرزمین پر سکھ کارکن کے قتل کی سازش بھارتی وزیراعظم مودی کے خلاف فرد جرم ہے۔بھارت نہ صرف خود بھارت کے اندر بلکہ بیرون ممالک میں بھی مخالفین کو نشانہ بنانے کا خوفناک ریکارڈ رکھتا ہے۔جس کی مثال پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں کشمیری کارکنوں کا بہیمانہ قتل بھی ہے۔انتہا پسند مودی کی قیادت میں بھارت اپنے سفارت خانوں کو اپنے جاسوس سفارت کاروں کے بھیس میں خفیہ کارروائیوں کیلئے استعمال کر رہا ہے۔مودی حکومت اپنے مذموم اقدامات اور ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کے ذریعے علاقائی اور عالمی استحکام کیلئے ایک بڑا خطرہ بن رہی ہے۔دنیا کو اپنی خاموشی توڑنی چاہیے اور بھارت کی مذموم کارروائیوں اور اس کی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی پر کھل اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیے۔
کینیڈا میں ہردیپ سنگھ نجرکے قتل اور امریکہ میں ایک اورسکھ رہنما گرو پتونت سنگھ پنون کے قتل کی سازش کے بعد مغربی ممالک خصوصاامریکہ، کینیڈا اوربرطانیہ نے بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی RAWکو اپنے آپریشنز بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ ان دو بڑے شہروں سے را کے اسٹیشن چیفز کو بے دخل کر دیا گیا ہے جبکہ واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں بھارتی خفیہ ایجنسی اب نیا اسٹیشن چیف تعینات نہیں کر سکتی۔یہ انکشافات بھارت کے معروف آن لائن جریدے دی پرنٹ The Printنے اپنی تازہ رپورٹ میں کیے ہیں۔دی پرنٹ کا کہنا ہے کہ امریکا، کینیڈا اور برطانیہ نے بھارت سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے کیونکہ بھارتی خفیہ ایجنسی نے خالصتان تحریک کے رہنمائوں کو نشانہ بنا کر ان ممالک کی سر زمین پر اپنے آپریشنز کے حوالے سے غیر اعلانیہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔بھارتی جریدے کے مطابق را کے جن آفیسراں کو بے دخل کیا گیا ہے ان میں سے ایک سان فرانسسکو میں را کا اسٹیشن چیف تھا اور دوسرا لندن میں را کے آپریشنز کا سربراہ تھا۔ واشنگٹن ڈی سی سے را کا اسٹیشن چیف سمنت گوئل ریٹائرمنٹ کے باعث کچھ عرصہ قبل بھارت واپس آچکا ہے اور اب بھارت کو وہاں نیا اسٹیشن چیف لگانے سے روک دیا گیا ہے۔اس سے قبل کینیڈا نے اوٹاوہ میں را کے اسٹیشن چیف پون کماررائے کو اعلانیہ طور پر بے دخل کیا تھا۔دی پرنٹ کامزید کہنا ہے کہ 1968میں را کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ شمالی امریکا میں اس کے آپریشنز بند ہوئے ہیں۔بھارتی خفیہ ایجنسی کے خلاف یہ بڑی کارروائی کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد شروع ہوئی ہے۔ اسی دوران امریکا میں سکھ رہنما گرپتونت سنگھ پنون کے قتل کی سازش کا معاملہ بھی سامنے آیاہے۔امریکا اب بھارت سے راکے خفیہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ دی پرنٹ کے مطابق سان فرانسسکو سے را کے اسٹیشن چیف کو بے دخل کر کے امریکا نے بھارت کو واضح پیغام دیا ہے کہ اگر را نے خطے میں جارحانہ کارروائیاں جاری رکھیں، تو اس کے ساتھ تعاون نہیں کیا جائے گا۔
ایک فرانسیسی خبر رساں ایجنسی نے لکھا ہے کہ جب کینیڈا نے بھارت پر اپنی سرزمین پر ایک شہری کو قتل کرنے کا الزام لگایا تو نئی دہلی نے اس الزا م کومضحکہ خیزقرار دیتے ہوئے مسترد کردیا، بعد ازاں دونوں ممالک کے تعلقات سخت خراب ہوئے اور دونوں نے ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو بے دخل کر دیا۔فرانسیسی ایجنسی نے مزید لکھا کہ تاہم حالیہ دنوں ایک بھارتی شہری پر امریکہ میں ایک سکھ خالصتان رہنما گرو پتونت سنگھ پنوںکو قتل کرنے کی سازش کا الزام عائد کرنے کے بعد بھارت کا سپر پاور اور سب سے بڑے تجارتی شراکت دار کے حوالے سے ردعمل مختلف تھا۔بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا کہ یہ تشویش کا معاملہ ہے اور تحقیقات کیلئے ایک خصوصی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔کاروان میگزین کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہرتوش سنگھ بال نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ واشنگٹن نے چین کے مقابلے کیلئے بھارت کو ایک اتحادی کے طور پر قبول کیا ہے تاہم قتل کی سازش کے الزامات سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں توازن بگڑنے کا خطرہ ہے۔ولسن سینٹر میں ساوتھ ایشین انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ امریکی حکام کو اب اس امکان سے نمٹنا چاہیے کہ اس کے اہم ترین اسٹریٹجک شراکت داروں میں سے ایک نے امریکی سرزمین پر ماورائے عدالت کارروائی کی کوشش کی ہے اور یہ ایک پریشان کن اور حساس معاملہ ہے جسکا اثر کافی دیر تک رہے گا۔
امریکا،کینیڈا میں سکھوں کے قتل کے اور سازش کے الزامات کے بعد بھارت کو بدمعاش لیبل کا سامناہے، بھارت کے سب سے بڑے اخبارہندوستان ٹائمز کا کہنا ہے کہ یہ تشویش کا معاملہ ہے اور ایک خصوصی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ جب کینیڈا نے اپنی سرزمین پر ایک شہری کو قتل کرنے کا الزام بھارت پر لگایا تو نئی دہلی نے ان الزامات کو مضحکہ خیز قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ تعلقات منقطع ہو گئے اور سفارت کاروں کو بے دخل کر دیا گیا تھا۔لیکن جب ایک بھارتی شہری پر امریکا میں ایک سکھ رہنما گرو پتونت سنگھ کے قتل کی سازش کا الزام لگایا گیا تو تبصرہ نگاروں نے نئی دہلی کے اپنے سپر پاور اتحادی اور سب سے بڑے تجارتی پارٹنر کیلئے ردعمل کا مشاہدہ کیا جو کہ بلکل مختلف تھا۔ ہندوستان ٹائمز نے ایک اداریہ میں لکھا کہ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا کہ یہ تشویش کا معاملہ ہے اور ایک خصوصی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے، یہ ایک پوائنٹر ہے کہ اسے کتنی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ لیکن نئی دہلی کے بلکل مختلف اور بہت زیادہ تعاون پر مبنی ردعمل کے باوجود صحافی شوبھاجیت رائے نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ اہم تعلقات کو خراب کردے گا۔شوبھا جیت رائے نے بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس میں لکھا کہ امریکہ کے ساتھ اس کے اسٹریٹجک تعلقات کی گہرائی اسے کچھ تدبیروں کی گنجائش فراہم کرتی ہے لیکن نئی دہلی نے اپنا کام ختم کر دیا ہے۔
جب کینیڈین وزیر اعظم نے الزام لگایا تھا تو ان کا قریبی اتحادی امریکہ خاموش تھا۔ امریکی اہلکاروں نے خدشات ظاہر کیے تھے لیکن جسٹن ٹروڈو کے ساتھ ہم آواز نہیں ہوئے تھے نہ ہی بھارت کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اب یہ پتا چلاہے کہ بھارت میں ہونے والی جی 20 سربراہی کانفرنس کے بعد جب کینیڈین وزیر اعظم نے عوامی سطح پر یہ الزام لگایا تھا تو اس سے کئی ہفتے قبل امریکی حکام کو اس منصوبے سے منسلک تحقیقات کا علم تھا۔ ایک سینیئر امریکی اہلکار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے جی 20 سربراہ اجلاس کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے اس معاملے پر تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button