بھارت میں بابری مسجد کے انہدام کو 31 برس مکمل ہو گئے
اسلام آباد06 دسمبر (کے ایم ایس) بھارت میں آج 6 دسمبر کو ریاستی اداروں کی حمایت یافتہ انتہا پسند ہندوو¿ں کے ہاتھوں تاریخی بابری مسجد کے انہدام کو 31 برس ہو گئے ۔
کشمیرمیڈیاسروس کی طرف سے آج جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں 16ویں صدی کی بابری مسجد کو 1992 میں آج ہی کے دن بی جے پی آر ایس ایس کی قیادت میں ہندو ہجوم نے ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ تاریخی مسجد کی شہادت کا یہ دلدوز واقعہ آج بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔
بابری مسجد کے انہدام سے زیادہ اذیت ناک بات خود بھارتی اعلیٰ عدلیہ کا جانبدارانہ کردار ہے جس نے نومبر 2019 میں ہندوو¿ں کو تاریخی مسجد کے مقام پر مندر بنانے کی اجازت دی ۔ بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے نہ صرف ہندوتوا نظریے کو ترجیح بلکہ اس نے ایل کے ایڈوانی جیسے بی جے پی کے شدت پسند رہنماﺅں بھی بری کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی سپریم کورٹ کے متعصبانہ فیصلے نے اس بات کی تصدیق کی کہ بھارتیہ عدلیہ آزادنہیں بلکہ ہندو فرقہ پرستوں کے تابع فرماں ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس رنجن گوگوئی کو بابری مسجد کیس میں ہندوﺅں کے حق میں فیصلہ سنانے کے لیے انعام کے طور پربعد میں بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت نے راجیہ سبھا کا رکن بنایا۔
کے ایم ایس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوتوا طاقتیں مسلمانوں کے مذہبی مقامات کی بے دریغ توڑ پھوڑ کر رہی ہیں۔ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بی جے پی نے ہزاروں مساجد کو مسمار کرنے اور ان کی جگہ مندر بنانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ یہاں تک کہ مسلم اداروں، مقامات اور شاہراہوں کے نام بھی ہندوو¿ں کے ناموں سے منسوب کیے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے حالات اس قدر ابتر ہو چکے ہیں کہ بھارت میں جانوروں کو بھی مسلمانوں سے زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ مسلمانوں کو دن دیہاڑے گائے کا گوشت کھانے اور مویشیوں کی نقل و حمل کے بہانے تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کیا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس سے متاثر بی جے پی حکومت مسلمانوں کی نسلی تطہیر کے منصوبے پر عمل پیراہے، جس پر عالمی برادری کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔