کشمیری سیاست دانوں نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق دو متنازعہ بلوں کی منظوری پر سوالات اٹھا دئے
سرینگر:
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر کے سیاستدانوں نے بھارتی پارلیمنٹ میں مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق ترمیمی بلوں کی منظوری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ لوک سبھا کی طرف سے ان متنازعہ بلوں کی منظوری جمہوری اور عدالتی طرز عمل کے بالکل برعکس ہے۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے ان خیالات کا اظہارگزشتہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا کی طرف سے جموں و کشمیر تنظیم نو ترمیمی بل کی منظوری پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔اس بل کا مقصد کشمیری مہاجر برادری اور بے گھر افراد کے نام پر غیر مسلموں کے لیے کشمیر اسمبلی کی تین نشستیں بڑھانا ہے ۔عمر عبداللہ نے پلوامہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ بھارتی سپریم کورٹ میں اس قانون سے متعلق ایک درخواست زیر سماعت ہے ۔انہوں نے بل کی منظوری پر اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ اس قانون کوانکی پارٹی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے اوراسکے علاوہ مودی حکومت مقبوضہ علاقے میں روزانہ کی بنیاد پر تبدیلیاں کر رہی ہے ۔
ادھر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ کے لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے کہاہے کہ جموں و کشمیر تنظیم نو ترمیمی بل ایسے وقت میں منظور کیا گیا جب تنظیم نو کے ایکٹ سے متعلق عرضداشت بھارتی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔انہوں نے کہاکہ مقدمے میں سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں اور مودی حکومت کے دلائل سن لیے ہیں اور اب صرف فیصلہ آنا باقی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ غیر جمہوری اور غیر آئینی فیصلے کرنا مودی حکومت کاروزکامعمول بن گیا ہے۔