سوپور قتل عام کی دلخراش یادیں لوگوں کے ذہنوں میں تاحال تازہ، متاثرہ خاندان انصاف کے منتظر
سرینگر:بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں قابض بھارتی پیراملٹری اہلکاروں کے ہاتھوں شمالی قصبے سوپور میں 1993 میں آج کے دن ہونے والے بدترین قتل عام کی خوفناک یادیں آج بھی علاقے کے لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس(بی ایس ایف) کے اہلکاروں نے اس دن فائرنگ کے ایک واقعے میں اپنے ایک ساتھی کے زخمی ہونے پر قصبے کے رہائشیوں خاص طور پر دکانداروںکو بدترین انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا تھا۔ سفاک بی ایس ایف اہلکاروں نے فائرنگ کر کے کم از کم 60افراد شہید اور 350 سے زائد دکانیں اور رہائشی مکانات نذر آتش کر دیے تھے۔
اس المناک واقعے کو گزرے تین دہائیاں ہو گئیں لیکن اس کی خوفناک اور دلخراش یادیں اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں ۔ سوپور قتل عام سمیت بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں مقبوضہ علاقے میں ہونے والے طرح کے دیگر قتل عام بھارتی جمہوریت کے ماتھے پر ایک بدنمادھبہ ہیں۔
سوپور قتل عام کے ایک عینی شاہد نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ بھارتی اہلکاروں نے اس روز لوگوں کو اندھا دھند وحشیانہ فائرنگ کا نشانہ بنایا اور قصبے کے مشہور سنیما ”صمد ٹاکیز“، اسلامیہ کالج سوپور (خواتین) سمیت شہر کی دکانوں پر بارود چھڑک کر انہیں نذر آتش کر دیا۔ قتل عام کے متاثرہ خاندان آج بھی انصاف کے منتظر ہیں جبکہ قاتل بھارتی فوجی آزاد گھوم رہے ہیں۔
عینی شاہدین نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ غاصب بھارتی اہلکاروں نے ایک بس ڈرائیور کو گاڑی سے گھسیٹ کر نیچے اتارنے کے بعد مسافروں کے جسموں پر اندھا دھند گولیاں برسائیں جس کے نتیجے میں سے 20 مسافر موقع پر ہی شہید ہو گئے تھے۔ ٹائم مےگزےن مےں سوپور قتل عام پر ”Blood Tide Rising“کے زےر عنوان اےک رپورٹ بھی شائع ہوئی تھی۔