پلوامہ حملہ بھارتی حکومت کے اندر موجود عناصر کی کارستانی تھا: سابق عہدیداران
اسلام آباد: مودی حکومت پلوامہ حملے کی پانچویں برسی اس مذموم عزم کے ساتھ منا رہی ہے کہ اسے آئندہ عام انتخابات میںایک ہتھیار کے طورپر استعمال کیا جائے۔
14فروری 2019کومقبوضہ جموں وکشمیر میں ضلع پلوامہ کے علاقے لیتہ پورہ میں بھارتی پیراملٹری سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے قافلے پر ایک حملے میں 40اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ بھارت کے اپنے سابق عہدیداروں اور سیاسی رہنمائوں کے مطابق یہ حملہ پاکستان کو بدنام کرنے اور اپنے سیاسی ایجنڈے کو تقویت پہنچانے کے لیے بھارتی حکومت کے اندر موجود عناصر کی کارستانی تھا۔بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے سپریم کورٹ کی نگرانی میں پلوامہ حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے حفاظتی اقدامات میں واضح تضادات اور کوتاہیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ سینٹرل ریزرو پولیس فورس نے غیر معمولی تعداد کی وجہ سے نقل و حمل کے لیے ہوائی جہاز کی درخواست کی تھی لیکن مرکزی وزارت داخلہ نے اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے حملے کے پس پردہ حقائق کو بے نقاب کرنے کے لئے شفاف تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے حمایت یافتہ بھارتی صحافی ارنب گوسوامی کے لیک شدہ پیغامات نے ستیہ پال کے دعوئوں کی مزید تصدیق کرتے ہوئے پلوامہ حملے کی منصوبہ بندی میں وزیر اعظم نریندر مودی اور اہم اداروں کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے۔یہ پیغامات عوامی جذبات کا استحصال اور انتخابی نتائج کو متاثر کرنے کے لیے ایک مربوط کوشش کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے پلوامہ حملے کی صداقت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ کانگریس لیڈر اودت راج نے وزیر اعظم مودی پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگایا ہے تاکہ پارلیمانی انتخابات سے قبل اپنی سیاسی قوت میں اضافہ کیا جائے۔ اسی طرح نیشنل کانفرنس کے رہنما شیخ مصطفی کمال نے حکومت پر الزام لگاتے ہوئے 2016کے اوڑی حملے اور 2019کے پلوامہ حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔