مضامین

مسئلہ کشمیر میں معاہدہ الحاق ہندوستان کی قانونی حیثیت کا از سرِ نو جائزہ

kashmir and pakistan accessionازقلم: سید انعام علی نقوی

1947 میں ریاست جموں و کشمیرپر ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ حکمران تھا جوہندو مذہب کا پیروکار تھا۔ اس کو آزادی ایکٹ کے تحت اختیار حاصل تھا کہ اپنی آبادی کی مذہبی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرے۔ اسی سال 19 جولائی کو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی نے جو کشمیر اسمبلی میں نمایاں اکثریت رکھتی تھی، ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں قیام پاکستان سے قبل ہی الحاق پاکستان کا فیصلہ کیا گیا۔
تاہم عوامی جذبات کے برعکس مہاراجہ نے ابتدا میں ایک آزاد حیثیت کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے بعد فرید کوٹ، کپورتھلا، اور پٹیالہ کے حکمرانوں کے دوروں کے بعد اور لارڈ مانٹ بیٹن اور دیگربھارتی رہنمائوں کی کامیاب کوششوں کی وجہ سے اس نے اپنا موقف تبدیل کیا اور بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا۔ نقطہ نظر میں اس تبدیلی نے کشمیر کے حالات میں ایک تبدیلی لائی اور صورتحال مسلمانوں پر جبر اور انکی نسل کشی کیلئے سکھوں، آر ایس ایس کے فوجی کیڈرز اور پٹیالہ فورسز کی آباد کاری کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ ہنگامہ خیز حالات آخرکار پونچھ میں بغاوت کا باعث بنے جس کے نتیجے میں باشندگان پونچھ نے ایک بڑے حصے کو آزاد کرا لیا۔ اس کے بعد قبائلی 21/22 اکتوبر کو اپنے مسلمان بھائیوں کی حمایت کے لیے پہنچے، بالآخر مظفرآباد کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ مظفرآباد کی آزادی کے بعد آزاد جموں و کشمیر کی حکومت 24 اکتوبر 1947کو قائم کی گئی۔ آزاد جموں و کشمیر کی آزادی کے بعدقبائلیوں کے سرینگر پہنچنے پرمہاراجہ نے جموں میں پناہ لی اور جیسا کہ مختلف مورخین نے لکھا ہے کہ 25یا 26اکتوبر کو انسٹرومنٹ آف ایکسیشن (الحاق کا معاہدہ) پر دستخط کیے۔ ہندوستان کے کشمیر پر اٹوٹ انگ جیسے دعوئوں کی بنیاد یہی الحاق کا معاہدہ ہے۔ اس مضمون میں ہم معاہدہ الحاق ہندوستان (انسٹرومنٹ آف ایکسیشن)کی قانونی حیثیت اور مطابقت کا بغور جائزہ لیں گے۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ معاہدوں کے قانون پر ویانا کنونشن (ویانا کنونشن آن دی لاء آف ٹریٹیز)نے کسی بھی معاہدے پر عملدرآمد کرنے کیلئے اسکی رجسٹریشن کو ضروری قرار دیا ہے اور اس کے آرٹیکل 102 میں کہا گیا ہے کہ موجودہ چارٹر کے نافذ ہونے کے بعد اقوام متحدہ کے کسی بھی رکن کی طرف سے کیا گیا ہر معاہدہ اور ہر بین الاقوامی معاہدہ جلد از جلد سیکرٹریٹ میں رجسٹرڈ ہوگااور اس کے ذریعے شائع کیا جائے گا۔تاہم الحاق کے معاہدے اور اس سے جڑے تاریخی حقائق پر غور کرتے وقت اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ یہ کبھی رجسٹر نہیں ہوا تھا اور یہ چیز ممکنہ طور پر اس معاہدے کی اہمیت کو کم کرتی ہے۔ اس کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ کے الحاق کی دستاویز پر دستخط کے اختیارات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ اگرچہ بہت سے اسکالرز کا استدلال ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے حکمران کی حیثیت سے وہ اپنی ریاست کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا تھا، لیکن دستخط کا وقت اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اس دستاویز پر 24اکتوبر 1947کے بعد دستخط کیے گئے تھے جب آزاد جموں و کشمیرنے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا اور مہاراجہ نے اپنی ریاست کے کافی حصے پر اپنا کنٹرول کھو دیا تھا۔ اس تناظر میں یہ بات قابل غور ہے کہ وہ ریاست کی جانب سے اسکی تقدیر کے فیصلے کیسے کر سکتا ہے جب کہ ایک بڑا حصہ پہلے ہی آزاد ہو چکا تھا اور الحاق کے معاہدے سے پہلے ہی آزاد کشمیر میں ایک نئی حکومت قائم ہو چکی تھی؟
اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ الحاق کا معاہدہ اب بھی اہمیت کا حامل ہے، تو یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ویانا کنونشن آن لاء آف ٹریٹیز کے آرٹیکل 2(1)(a) کی جانچ پڑتال کی جائے جو کہ ایک”معاہدے”کوبین الاقوامی معاہدے کے طور پر بیان کرتا ہے خواہ وہ اپنی تحریری شکل میں ایک دستاویز میں مجسم ہو یا دو یا دو سے زیادہ متعلقہ دستاویزات میں اور جو بھی اس کا مخصوص عہدہ ہو۔تاریخی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ جب مہاراجہ نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو الحاق کا معاہدہ بھیجا تو مائونٹ بیٹن نے اس کے اعتراف میں ایک خط کے ساتھ جواب دیا۔ ویانا کنونشن آن دی لاء آف ٹریٹیز کے آرٹیکل 2(1)(a)کے مطابق مائونٹ بیٹن کے خط کو معاہدے کا ایک لازمی حصہ سمجھنا ضروری ہے۔ اس خط میں مائونٹ بیٹن نے پیغام دیا کہ میری حکومت کی خواہش ہے کہ جیسے ہی جموں و کشمیر میں امن و امان بحال ہو جائے اور اس کی سرزمین کو حملہ آوروں سے پاک کر دیا جائے، ریاست کے الحاق کے سوال کو لوگوں کے ذریعے حل کیا جائے۔مائونٹ بیٹن کی طرف سے”لوگوں کے ذریعے ”کی شق کی شمولیت سے پتہ چلتا ہے کہ الحاق کا معاہدہ حتمی اور اٹل نہیں ہو سکتا۔ مزید برآں ریاستی عہدیداروں کے بیانات قانونی وزن رکھتے ہیں۔ کشمیر کے معاملے میں بھارتی وزیر اعظم نہرو نے 31اکتوبر 1947کو پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کو اپنے ٹیلیگرام میں کہا تھاکہ ”ہم یقین دہانی کرواتے ہیں کہ امن و امان بحال ہوتے ہی ہم کشمیر سے اپنی فوجیں نکال لیں گے اور ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام پر چھوڑ دیں گے۔ یہ صرف آپ کی حکومت سے عہد نہیں ہے بلکہ کشمیر کے لوگوں اور اقوامِ عالم سے بھی ہے۔”
مزید برآںنہرو نے 21نومبر 1947کو لیاقت علی خان کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے کہاکہ ”کشمیر کو الحاق کے سوال کا فیصلہ بین الاقوامی سرپرستی میں رائے شماری یا ریفرنڈم کے ذریعے کرنا چاہیے، جیسا کہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام 25نومبر 1947کو ہندوستان کے وزیر اعظم نہرو نے ہندوستانی دستور ساز اسمبلی میں کشمیر کے بارے میں ایک بیان دیا، جس میں انہوں نے دیگر تمام باتوں کے ساتھ ساتھ کہاکہ ”ہماری نیک نیتی کو قائم کرنے کے لیے ہم نے یہ تجویز کیا ہے کہ جب کشمیر کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع اور حق دیا جائے تو یہ اقوام متحدہ کی تنظیم جیسے غیر جانبدار ٹریبونل کی نگرانی میں کیا جانا چاہیے۔” کشمیر میں مسئلہ یہ ہے کہ تشدد اور برہنہ طاقت، مستقبل کا فیصلہ کرے یا پھر عوام کی مرضی۔ان سب باتوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ مائونٹ بیٹن نے مہاراجہ کو لکھے اپنے خط میں اور نہرو نے اپنے ریڈیو نشریات اور پاکستانی وزیر اعظم کو لکھے گئے خطوط اور ٹیلیگرام میں عوام کی مرضی کے حوالے سے فیصلے کرنے کا ذکر کیوں کیا، اگر الحاق کا معاہدہ واقعی حتمی اور اٹل تھا؟
آخر میں اقوام متحدہ نے جو ایک اہم بین الاقوامی ادارہ ہے، کشمیر کی حمایت میں متعدد قراردادیں منظور کی ہیں، جن میں اسے ایک متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا ہے جسے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے جمہوری عمل کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ سب سے اہم 21اپریل 1948کی قرارداد نمبر 47ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ” ہندوستان اور پاکستان دونوں چاہتے ہیں کہ جموں و کشمیر کے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقہ سے کیا جائے۔”
مجموعی طور پراقوام متحدہ کے سیکرٹریٹ میں انسٹرومنٹ آف ایکسیشن کی غیر رجسٹرڈ حیثیت اور مہاراجہ کے اس کی توثیق کے اختیار سے متعلق خدشات کے ساتھ یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ معاہدہ حتمی اور اٹل نہیں ہے بلکہ اس کی قانونی حیثیت قابل بحث ہے۔ یہ بحث اس وقت مزید زور پکڑتی ہے جب مائونٹ بیٹن اور نہرو اپنے بیانات میں کشمیر کی تقدیر کا حتمی فیصلہ اس کے عوام کی مرضی سے کرنے پر زور دیتے ہیں۔ مزید برآں، اقوام متحدہ کی قراردادیں جو کشمیر کی متنازعہ حیثیت کی توثیق کرتی ہیں اور استصواب رائے کی وکالت کرتی ہیں، وہ الحاق کے معاہدے کی قانونی حیثیت کو واضح کرتی ہیں کہ یہ معاہدہ اور اس میں کیا گیا فیصلہ ہرگز حتمی نہ تھا۔

سید انعام علی نقوی
مضمون نگار نے یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے نہ صرف دگڑی بلکہ میرٹ سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا اور باقاعدہ طور پر مسئلہ کشمیر، جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطی کی سیاست پر لکھتے ہیں اور پاکستان کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button