دلی ہائی کورٹ کے ٹریبونل نے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پر پابندی کی توثیق کر دی
نئی دلی: دلی ہائی کورٹ کے ایک ٹریبونل نے غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں آزاد پسند سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پر عائد غیر قانونی پابندی کی توثیق کر دی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ہائی کورٹ نے جماعت اسلامی کو بھارت کی داخلی سلامتی اور امن وامان کی صورتحال کیلئے خطرہ قراردیتے ہوئے دعوی کیا کہ جماعت بھارت کے اتحاد اور سالمیت کو متاثر کرسکتی ہے ۔بھارتی وزارت داخلہ نے جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف 47مقدمات درج کیے تھے۔جن میں فنڈز کی وصولی اور رائے شماری اور بھارتی قبضے سے آزادی کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنے سے متعلق بھارتی تحقیقاتی ادارے این ااے کی طرف سے در ج کیاجانیوالا ایک مقدمہ بھی شامل ہے ۔جماعت اسلامی کے ارکان اور کارکنان بشمول الہدی ایجوکیشنل ٹرسٹ کے چیف ایگزیکٹیو امیر محمد شمسی کے خلاف بھی این آئی اے نے فنڈز کی وصولی کا ایک اور مقدمہ درج کیاتھا۔ بھارتی وزارت داخلہ نے فروری 2019 میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تھی ۔ امیر جماعت اسلامی سمیت اعلیٰ قیادت نے یہ ٹرسٹ قائم کیاتھا۔ بھارتی وزارت داخلہ نے یہ بھی دعویٰ کیا تھاکہ جماعت اسلامی مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے اور جموں و کشمیر اور دیگر مقامت پر بھارتی تسلط سے آزادی کی مسلسل حمایت کر رہی ہے۔دلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس نوین چاولہ پر مشتمل ٹریبونل نے اپنے فیصلے میں قراردیا کہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کو 27فروری کے نوٹیفکیشن کے ذریعے غیر قانونی تنظیم قرار دینے کا جواز موجود ہے۔قبل ازیں جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیرپر بی جے پی حکومت نے 28 فروری 2019 کو پانچ سال کی مدت کے لیے پابندی عائد کی تھی جس میں بعد ازاں 28فروری 2024 تک مزید پانچ سال کی توسیع کر دی گئی ۔