جموں وکشمیر پبلک سروس کمیشن کے نتائج میں مسلمانوں کی کم نمائندگی پر اظہار تشویش
سرینگر: غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں پبلک سروس کمیشن کے مسابقتی امتحان 2023کے نتائج نے تنازعے کو جنم دیا ہے کیونکہ منتخب امیدواروں کی فہرست میں ہندوئوں اور مسلمانوں میں واضح عدم توازن نظرآتا ہے جس سے کشمیری عوام میں شدید تشویش پائی جاتی ہے
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق منتخب کیے گئے 71امیدواروں میں سے 36سے زائد ہندو ہیں حالانکہ وہ علاقے میں آبادی کا صرف 28فیصد ہے جبکہ مسلمان تقریبا 70 فیصد ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی نمایاں اکثریت کے باوجود امتحانی نتائج میں ان کی کم نمائندگی شدیدتشویش کا باعث ہے۔ان اعلیٰ سرکاری ملازمتوںپر ہندوئوںکو منتخب کیاگیاہے جو محکمہ مال جیسے اہم محکموں کی نگرانی کرتے ہیں۔مسلمانوں کی بھاری اکثریت کے باوجود نومنتخب امیدواروں میں ان کی کم نمائندگی نے سوالات کو جنم دیاہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں اہم انتظامی عہدوں پر پہلے ہی ہندوئوں کی اکثریت کا تقررکیاگیا ہے جس میں خاص طوپر محکمہ مال شامل ہے۔ جموں وکشمیر پبلک سروس کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ منتخب امیدواروں میں سے صرف 29(تقریبا 40%)اوپن میرٹ کے زمرے سے آتے ہیں ۔ اس کے برعکس منتخب امیدواروں میں سے 60%کا تعلق ریزروکوٹے سے ہے جو درجہ فہرست ذاتوں اورقبائل کے لئے مختص ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال نوکر شاہی اور سیاسی بددیانتی کے ایک دیرینہ رجحان کی عکاسی کرتی ہے جس نے سلیکشن کے عمل میں میرٹ کے اصول کو نقصان پہنچایا ہے۔امتحان کے نتائج مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریزرویشن کی پالیسیوں کے بارے میں اہم سیاسی مباحثے کے بعد آئے ہیں۔ مبصرین نیشنل کانفرنس کی انتظامیہ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اوپن میرٹ کے امیدواروں کی منصفانہ نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے ریزرویشن کے طریقوں کا مکمل جائزہ لے کر اپنے منشور میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرے۔ انتخابی نتائج میں تفاوت سے علاقے میں مسلم اکثریت کے خلاف تعصب اور امتیازی سلوک کی عکاسی ہوتی ہے۔ جموں وکشمیر پبلک سروس کمیشن کے سلیکشن عمل کو آبادی کے تناسب کو مدنظر نہ رکھنے پر پہلے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔