ایسی اذان جسے 22موذنوں نے جام شہادت نوش کرتے کرتے مکمل کیا
نجیب الغفور خان (جموں و کشمیر لبریشن سیل)
13 جولائی کو ہر برس دنیا بھر کے کشمیری ان شہداءکی یاد میں” یوم شہدائے کشمیر “مناتے ہیں جنہوں نے ڈوگرہ فورسزکی طرف سے برسنے والی گولیوں اپنے جسموں پر کھاتے کھاتے آذان مکمل کی۔13 جولائی 1931 کا یہ واقعہ تحریک آزادی جموں وکشمیر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس واقعہ کو تحریک آزادی جموں و کشمیر کا نقطہ آغاز بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس واقعے کے بعد اس میں نئی جان پیدا ہو گئی تھی۔ یہ تحریک اب نئے عزم ولولے کے ساتھ اٹھی اور اب یہ آہ و فغان اور نالہ و فریاد کے دور سے نکل کر سربکف ہو گئی تھی۔ کشمیری مسلمان گزشتہ دو صدیوں سے اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ویسے تو ہر دن کشمیریوں کی قربانیوں سے بھرا ہے مگر 13جولائی 1931 جموں وکشمیر کی تاریخ کا وہ غیر معمولی دن ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس دن کشمیریوں کے اوپر چلنے والی گولی سے نہ صرف کشمیری مسلمانو ں میں بلکہ غیر مسلم کشمیریوں کے دلوں میں بھی ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف نفرت کا آغاز ہوا۔ وائسرائے ہند کشمیر گئے تو کشمیری مسلمانوں کے ایک نمائندہ وفد نے ان کے سامنے دس نکات پر مشتمل ایک قرارداد پیش کی جس میں کشمیریوں کے بنیادی حقوق، ملازمتوں میں نمائندگی اور دیگر اہم نکات کوشامل کیا گیا۔وائسرائے نے ان مطالبات کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی بنائی۔ مگر بد قسمتی سے کمیٹی کوئی بھی فیصلہ نہ کر سکی اور مہاراجہ پرتاب سنگھ نے اس قرارداد پر دستخط کر نے والے کشمیریوں کو سخت ترین سزائیں دیں اور ان کو ریاست بد ر کیا۔ 1927ء میں ہری سنگھ نے ریاست سے باہر رہنے والے مسلمانوں کو ریاست کے اندر منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے محروم کر دیا۔ 11ستمبر1930ءکو شیخ عبد اللہ اور سرینگر کا لج کے 12طلباءنے مہاراجہ ہر ی سنگھ کو جو قرارداد پیش کی تھی 28جنوری1931کو اسکا انتہائی غیر تسلی بخش جواب دیا گیا۔ جس کی وجہ سے ریاست کے اند راور بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے میں مہاراجہ کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا۔ اس زمانے میں ایک غیر سیاسی تنظیم مسلم ایسوسی ایشن کے نام سے قائم ہوئی جس نے مسلمانوں کے مطالبات کے حل کے لئے با ضابطہ جدوجہد کا آغاز کیا مگر اس کے ساتھ ہی ایک ایساواقعہ ہوا جس نے مسلمانوں کے جذبات کو ابھار کر رکھ دیا۔ یہ واقعہ پولیس کی طرف سے مسلمانوں کو عید کی نماز کی اجازت نہ دینے سے شروع ہوا اور ساتھ ہی قرآن پاک کی بے حرمتی کا واقعہ بھی سامنے آیا۔ جس کیخلاف مسلمانوں کا رد عمل شدید آیا اور انہوں نے احتجاج شروع کیا جس پر حکومت نے ان کے اکٹھا ہونے پر پابندی عائد کر دی۔ 12جون کو مسلمانوں کاجامع مسجد خانقاہ معلی میں ایک اجتماع ہوا جس میں عبد القدیر نامی نوجوان نے بڑی جوشیلی تقریر کی اور اعلان کیا کہ ہم ڈوگرہ کی ان پابندیوں کو کسی صورت نہیں مانیں گے۔ اس نوجوان کی جوشیلی تقریر کے بعد مسلمانوں میں مذید حوصلہ پیدا ہوا۔ڈوگرہ حکومت نے اس تقریر کی پاداش میں25جون کوعبد القدیر کو گرفتار رکر لیا جس کے بعد مسلمانوں کے اندر مہاراجہ کیخلاف غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمانوں نے ایک ریلی نکالی اور مہاراجہ کے خلاف نعرے لگائے اور تحریک آزادی کے حق میں تقاریر کیں۔ مہاراجہ کو خطرات محسوس ہو نے لگے۔ وہ ہر حال میں مسلمانوں کی اس تحریک کو دبانا چاہتا تھا۔ ادھر مسلمانوں کے جذبات میں روز بروز شدت آ رہی تھی اور ان کے اندر ایک نیا عزم، ولولہ اور حوصلہ جنم لے رہا تھا۔ مسلمانوں نے مہاراجہ کے مظالم کے سامنے ڈٹ جانے کا عزم کیا ہوا تھا۔ 13 جولائی 1931 کو صبح سویرے سینکڑوں مسلمان سینٹرل جیل سری نگر کے باہر جمع ہو گئے۔ سنٹرل جیل سرینگر کے باہر نہتے کشمیری اور مسلح ڈوگرہ سپاہی آمنے سامنے تھے۔ اس دوران مسلمانوں نے نماز کیلئے صف بندی شروع کر دی تو اذان کیلئے ایک نوجوان نے دیوار پر چڑھ کر اذان دینا شروع کی۔ ابھی پہلا جملہ اللہ اکبر ہی کہا تھا کہ پولیس نے اسے گولی مار کر شہید کر دیا۔ فوراً دوسرے جوان نے اس کی جگہ لی اور دوسرا جملہ مکمل کیا۔ اسے بھی گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ یوں اذان کے ہر جملے پر ایک جوان اپنی جوانی قربان کرتا گیا۔ اسطرھ 2 2 نوجوان اذان مکمل کر کے حیات جاوداں پا گئے۔ غالباً یہ دنیا کی واحد اذان ہے جس میں اللہ کا کا نام پکارتے ہوئے22 موذن جان قربان کر بیٹھے۔یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ظالمانہ اور جابرانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اور عزت و آزادی کی صبح بہاراں کا منظر دیکھنے کے لیے لہو کے نذرانے دینا پڑتے ہیں اور سروں کی فصل کٹانا پڑتی ہے۔ وطن اور قوم کی خاطر دی گئی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ 13جولائی 1931 جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کا وہ دن ہے جب خطہ کشمیر کی جدوجہد آزادی ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کر گئی اور آج مقبوضہ جموں و کشمیر کے مجاہدین اور غازی اپنے مقدس لہو سے اس خونی تاریخ کا ایک اور باب رقم کر رہے ہیں۔ ریاستی دہشت گردی کے باوجود بھارت کشمیریوں کی آواز کو دبانے میں مسلسل ناکام رہا ہے، لاکھوں کشمیری شہدا کا خون تحریک آزادی کشمیر کے زندہ ہونے کی دلیل ہے۔یوم شہدائے کشمیر 9دہائیوں سے ہر سال 13 جولائی کو منایا جاتا ہے۔یہ تاریخی دن کشمیر اور پاکستان کے عوام اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری اور پاکستانی مناتے ہیں۔13جولائی کی قربانیوں کی داستان آج تک کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو تازہ رکھے ہوئے ہے۔ یہی واقعہ دراصل تحریک آزادی کی بنیاد بنااوریہی وہ ناقابل فراموش دن ہے جب کشمیریوں نے عہد کیا کہ وہ ہر قیمت پر آزادی حاصل کر کے رہیں گے۔13جولائی کے اس سفاکانہ واقعہ کے بعد بھی 9 دہائیوں سے کشمیری عوام ہندو راشٹرا کے ریاستی جبر و ستم کا شکار رہے مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ہر سال 13جولائی کو دنیا بھر میں شہدائے کشمیر کو زبردست طریقے سے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔کشمیری اس عزم کا اعادہ بھی کرتے ہیں کہ وہ ہندوستانی جبر و استبداد سے آزادی حاصل کر کے رہیں گے۔ 13جولائی کا دن بلاشبہ کشمیریوں کے عزم و حوصلے اور جدوجہد کا نشان ہے۔
مودی کی فرقہ پرست حکومت نے مقبوضہ جموں کشمیر میں یوم شہدا کی تعطیل ختم کرنے کا اعلان کر کے کشمیریوں کی تاریخ کی توہین کی ہے۔ مقبوضہ علاقے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارتی ریاست کے تئیں نفرت بڑھ رہی ہے۔اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری اپنے حق کیلئے جائز جدوجہد کر رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر پر 10لاکھ بھارتی فوجی مسلط ہیں۔ہندوستان متنازعہ علاقے کو مسلم اکثریتی ریاست سے ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنے پر ت±لا ہوا ہے۔جو جنیوا کنونشن4کے آرٹیکل 49کی خلاف ورزی ہے۔ اس تنازعے کے باعث آج مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک سنگین انسانی بحران ہے۔ بھارت د±نیا کا سب سے بڑا د ہشتگرد ملک ہے جو کشمیریوںکی آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے لیکن اسے ناکامی کا سامنا۔بھارتی کی تمام تر چیرہ دستوں کے باوجود کشمیریوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ شہداءکے عظیم مشن کو مقصد کے حصول تک جاری رکھنے کیلئے پر عزم ہیں۔