9 نومبر 1947 وہ دن ہے جب بھارتی افواج نے بین الاقوامی قوانین کو پائوں روندتے ہوئے ریاست جونا گڑھ پر غیر قانونی طور پر قبضہ کیا تھا۔ جونا گڑھ پر غیر قانونی بھارتی قبضہ ویانا کنونشن کے ریاستوں سے متعلق قانونی معاہدے کے آرٹیکل 26 کی صریحا خلاف ورزی ہے۔ حالانکہ ریاست کے حکمران اور عوام کی جانب سے پاکستان کیساتھ الحاق کی بنیاد پر ریاست جونا گڑھ پر پاکستان کا مکمل حق ہے ، کیونکہ جونا گڑھ کے اس وقت کے گورنر نواب مہابت خان اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 15 ستمبر 1947 میں پاکستان کیساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کیے تھے ۔ 1947 میں نواب آف جونا گڑھ نے نظریہ پاکستان کے مطابق براہ راست پاکستان کیساتھ الحاق کا انتخاب اور فیصلہ کیا۔ جو عوامی امنگوں اور خواہشات کے عین مطابق تھا ، جونا گڑھ کا پاکستان کیساتھ الحاق وہ خواب تھا جو تقسیم برصغیر کے موقع پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔ بھارت نے 1947 میں بڑی ڈھٹائی سے جارحیت کے ذریعے ریاست جونا گڑھ پر غیر قانونی قبضہ کیا، جونا گڑھ کے حکمران اور اس کے عوام نے ریاست پر بھارت کی جانب سے غیر قانونی اور غاصبانہ قبضہ کرنے سے پہلے پاکستان کیساتھ الحاق کا عہد کیا تھا۔ایسے میںپاکستان پر یہ لازم ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر اور جوناگڑھ کو بھارت کے غیر قانونی قبضے سے آزاد کرانے کیلئے کوششیں کریں اور اس میں وہ پرعزم بھی ہے۔ کیونکہ پاکستان نے جونا گڑھ کو اپنے نئے سیاسی نقشے میں بھی شامل کیا ہے۔ جونا گڑھ کے عوام کوریاست کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ بھارت تقسیم برصغیر کے منصوبے اور اصولوں کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر اور جونا گڑھ دونوں پر غیر قانونی طور پر قابض ہے۔ اس غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے اہل کشمیر گزشتہ 77برسوں سے برسر پیکار اور قربانیوں کی عظیم ولا زوال جدو جہد کر رہے ہیں۔ پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر اور جونا گڑھ کو بھارت کے ناجائز ، غیر قانونی ، غیر اخلاقی اور غاصبانہ قبضے سے آزاد کرانے میں بھر پور کوششیں کرنے میں پرعزم ہے ، جموں و کشمیر اور جونا گڑھ دو بین الاقوامی متنازعہ مسائل ہیں جنہیں عوامی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حل کرنا ناگزیر ہے۔ اقوام متحدہ مقبوضہ جموں و کشمیر اور جونا گڑھ کو بھارت کے ناجائز قبضے سے آزاد کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ تا کہ اس ادارے پر مظلوم عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ تقسیم برصغیر کے وقت جو نا گڑھ برصغیر کی ان ریاستوں میں سے ایک تھی جو انگریزوں کے برصغیر پر قبضہ سے برطانوی سامراج کے زیر تسلط آئیں۔ جونا گڑھ آمدنی کے اعتبار سے پانچویں بڑی ریاست تھی جبکہ مسلمان ریاستوں میں دوسرے نمبر پر تھی ۔ 1947 میں تقسیم برصغیر کے اصولوں کے مطابق تمام ریاستوں کو تین آپشن دیئے گئے کہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک ملک کیساتھ الحاق کر لیں یا پھر چاہیں تو آزاد حیثیت میں رہیں۔ تقسیم برصغیر کے وقت جونا گڑھ میں نواب مہابت خانجی کی حکومت تھی۔ انہوں نے اجمیر کے میو کالج سے تعلیم حاصل کی تھی اور وہ 1920 میں ریاست کے تخت پر براجمان ہوئے تھے۔ ان کے انگریزوں کیساتھ خوش گوار تعلقات تھے اور انہیں بھارت آمد پر 13 توپوں کی سلامی پیش کی جاتی تھی۔ نواب کو متعدد اعزازات سے بھی نوازا گیا، جن میں نائٹ ہڈ ، اسٹار آف انڈیا اور نائٹ گرینڈ کمانڈر آف دی انڈین ایمپائر کے علاوہ برطانوی فوج کے ہز ہائنس میجر کا عہدہ بھی شامل ہے۔ تقسیم کے وقت جو نا گڑھ کے نواب سر مہابت خانجی نے گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح کیساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کئے اور 15 ستمبر 1947 میں جونا گڑھ باقاعدہ طور پر پاکستان کا حصہ بن گیا جس کے بعد اسٹیٹ ہاوس آف جونا گڑھ پر پاکستانی پر چم لہرا دیا گیا۔ نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان سے الحاق کے فیصلے کی ریاستی کونسل سے منظوری لی جس میں مسلمان اور ہند وسب شامل تھے۔ ریاست جونا گڑھ کا رقبہ دس ہزار مربع کلو میٹر تھا جس میں ایک ہزار کے قریب دیہات و قصبات شامل تھے ۔ 1941 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی آٹھ لاکھ 16 ہزار تھی ۔ یہ سمندر کے راستے کراچی سے صرف 2 سو میل کے دوری پر ہے۔ بحیرہ عرب پر ریاست کی 16 بندرگا ہیں موجود تھیں جہاں سے صدیوں سے بھارت کے دوسرے علاقوں اور دیگر ممالک سے تجارت ہوتی تھی ۔ جونا گڑھ قدیم زمانے سے راجپوت ریاست تھی۔ پہلی بار 1472 میں اسے مسلمانوں نے فتح کیا جس کے بعد یہ اکبر کے دور میں مغلوں کے کنٹرول میں آگئی لیکن محمد شاہ رنگیلا کے دور میں ایک پٹھان سپاہی شیر خان بابی نے مغل گورنر کو مارد یا اور جونا گڑھ پر اپنا جھنڈا گاڑ دیا۔ میجر سر مہابت خان جی سوم کا تعلق اسی بابی خاندان سے تھا جو سات نسلوں سے اس ریاست پر حکمران چلا آرہا تھا۔ تقسیم برصغیر کے موقع پر بھارت نے برطانوی حکومت کی ملی بھگت سے ہر جگہ پاور پالیٹکس کو اپناتے ہوئے عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیریں اور جارحانہ اقدامات کئے اسی طرح جونا گڑھے کے حوالے سے بھی عالمی قوانین کے خلاف جارحانہ اقدام کیا اور 9 نومبر 1947 میں جب نواب مہابت خانجی کراچی گئے ہوئے تھے تو بھارت نے مختلف افواہیں پھیلاتے ہوئے جونا گڑھ میں اپنی فوجیں داخل کردیں اور بزور طاقت جونا گڑھ کو اپنی عملداری میں لے لیا۔ بھارت کے اس غاصبانہ قبضے کے خلاف پاکستان نے اس وقت اقوام متحدہ سے باضابطہ رجوع کیا۔ یہ ریاست تقریبا 3 ماہ تک پاکستان کا حصہ رہنے کے بعد ہندوں کے قبضے میں چلی گئی ۔ جونا گڑھ کے پاکستان کیساتھ الحاق کو 15 ستمبر 2024 میں 77 برس پورے ہو گئے لیکن کراچی میں مقیم جونا گڑھی عوام اس بھارتی جبر و تسلط کو نہیں بھول سکے۔ اس ریاست کے جلا وطن حکمران ہز ہائنس نواب صاحب محمد جہانگیر خان جی جو مہابت خان جی سوم کے پوتے اور بابی خاندان کے 11 ویں نواب تھے ،نے20جوالائی 2023 میں کراچی کے جونا گڑھ ہاوس میں اپنی آخری سانسیں لیں۔ وہ حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کی توجہ اس اہم مسئلے کی طرف دلاتے رہے کیونکہ یہ اہل پاکستان کا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے کہ جونا گڑھ اور مقبوضہ جموں و کشمیر سمیت دیگر مسلم علاقے اور ریاستیں جو کہ بھارت کے ناجائز اور غاصبانہ قبضے میں ہیں، انہیں آزاد کرانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔ جونا گڑھ کے مسئلے میں پاکستان کا کیس بھارت کے مقابلے میں بہت مضبوط ہے۔ آج کے آئین پاکستان کے مطابق جونا گڑھ پاکستان کے نقشے کا حصہ ہے۔ حکومت پاکستان کے پاس آج بھی وہ الحاقی دستاویزات موجود ہیں جس پر نواب آف جونا گڑھ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح کے دستخط موجود ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے حصول کیلئے تحریک آزادی پوری دنیا میں معروف اور اہل کشمیر بے مثال قربانیوں کی تاریخ رقم کر رہے ہیں، جونا گڑھ کے حصول کیلئے بھی بھر پور جد و جہد اورکوششیں ناگزیر ضرورت ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر اور جونا گڑھ کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا بھارت کیساتھ نام نہاد الحاق کے وقت مہاراجہ ہری سنگھ اپنی ریاست کا دارلحکومت چھوڑ کر بھاگ چکا تھا اور عملا ریاست پر کنٹرول کھو چکا تھا اور کشمیری عوام اس کے خلاف ایک مربوط تحریک شروع کرچکے تھے مزید یہ کہ آج تک بھارت نے اس نام نہاد دستاویز الحاق کو بھی ظاہر نہیں کیا جبکہ جونا گڑھ کے نواب نے ریاستی کونسل رضا مندی کیساتھ پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا اور با قاعدہ دستخط شدہ دستاویز الحاق حکومت پاکستان کے حوالے کیں جس پر دو خود مختار ریاستوں) پاکستان و جونا گڑھ کے قانونی سربراہان)گورنر جنرل آف پاکستان محمد علی جناح ونواب آف جونا گڑھ سر مہابت خانجی کے دستخط ہیں ۔ یہ بات اس وقت اہمیت کی حامل ہے کہ مسئلہ کشمیر کو جس طرح اہل پاکستان نے اجا گر کیا ہوا ہے اسی جذبے اور جوش سے جو نا گڑھ کے مسئلے کو بھی عالمی سطح پر اجاگر کرنا چاہیے ۔ جونا گڑھ پاکستان کا آئینی حصہ ہے۔ اپنے اس قانونی حصے کو اہل پاکستان کیسے بھلا سکتے ہیں ۔ حکومت پاکستان کو مسئلہ کشمیر کیساتھ جونا گڑھ کو بھی اٹھانا چاہیے ۔ پاکستانی میڈیا کو بھی جونا گڑھ کے الحاق اور سقوط کے مواقع پر خصوصی کوریج کرنی چاہیے ۔ میڈیا ریاست جونا گڑھ کیلئے آواز اٹھا کر اپنادینی اور قومی فریضہ ادا کر سکتا ہے۔ جونا گڑھ پاکستان کا آئینی اور قانونی حصہ ہے اور جونا گڑھ کے بغیر پاکستان کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ جونا گڑھ پاکستان کا ایک نامکمل باب ہے۔ حکومت پاکستان نے پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ جاری کیا ۔ جس پر مقبوضہ جموں و کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے اور اس پر یہ تحریر درج ہے کہ یہ متنازع علاقہ ہے جس پر بھارت نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ پاکستان نے اس نئے نقشے پر سابق ریاست جونا گڑھ اور منا و در کو بھی اپنا حصہ دکھایا ہے۔ یہ علاقے اب بھارتی ریاست گجرات کا حصہ ہیں ۔ یہاں ہندو مذہب کا ایک مقدس مقام سومنات کا مندر بھی واقع ہے۔ پاکستان کا مو قف ہے کہ جونا گڑھ اور مناودر ہمیشہ سے اس کا حصہ تھے کیونکہ جونا گڑھ کے را جہ نے تقسیم برصغیر کے وقت پاکستان کیساتھ الحاق کیا تھا مگر بھارت نے بزور طاقت اس ریاست پر اپنا قبضہ جمالیا۔ نئے نقشے پر پاکستان نے اس کو اپنا حصہ ظاہر کیا ہے ، جس کا مقصد اپنی پوزیشن واضح کرنا ہے۔ پاکستان ماضی میں بھی جونا گڑھ کو نقشے پر اپنا حصہ دکھاتا رہا ہے، اب اس کو باضابطہ طور پر نئے سیاسی نقشے پر لایا جاچکاہے۔ نقشے کا جاری کرنا ایگزیکٹو ایکشن یا انتظامی عمل کے زمرے میں آتا ہے اور قانونی اعتبار سے اس کی اہمیت ہوتی ہے۔ جونا گڑھ کو دوبارہ نقشے پر پاکستان کا حصہ دکھانے کا مقصد اس علاقے پر اپنے دعوے کو واضح کرتا ہے۔ جونا گڑھ اب بھی ایک متنازع علاقہ ہے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں یہ معاملہ اٹھایا بھی گیا تھا لیکن بحث کے بعد بھی اس کا تصفیہ نہیں ہو پایا تھا۔ دوسرے الفاظ میں جونا گڑھ پر بھارت کا قبضہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ اصول یہی تھا کہ نواب جہاں جائے گا، ریاست بھی ادھر جائے گی لیکن بھارت نے اس کی صریحا خلا ورزی جونا گڑھ، مقبوضہ جموں وکشمیر اور حیدر آباد کی ریاستوں پر ناجائز اور غاصبانہ قبضے کے ذریعے کی۔ جونا گڑھ کو دوبارہ زندہ کرنے کے سلسلے میں پاکستان کی نوجوان نسل کو اس مسئلہ سے لازمی طور پر آگاہ رکھنا چاہیے جو اسی صورت ممکن ہے کہ اس مسئلے کی تاریخ پاکستان کے نصاب میں شامل ہو۔ وقت آگیا ہے کہ جہاں مسئلہ کشمیر پر دنیا کی توجہ پاکستان مبذول کروا رہا ہے تو اس کیساتھ ساتھ جونا گڑھ کے دیرینہ تنازعے کو بھی عالی سطح پراجاگر کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں جونا گڑھ کی جلا وطن حکومت کے قیام کیلئے بھی کوششیں تیز کی جائیں ۔ پاکستان میں جوناگڑھ کی کئی برادریاں آج بھی مقیم ہیں جن کی افرادی قوت 40لاکھ سے زائد ہے۔ اتنی بڑی آبادی کیلئے انتظامی طور پر علیحدہ یونٹ کا قیام ناگزیر ضرورت ہے۔