ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے حال ہی میں 20 اگست کو بھارت کا سرکاری دورہ کیا۔اس دورے کے دوران ملائیشین وزیر اعظم سے کچھ ایسے بیانات منسوب ہوچکے ہیں جو ملائیشیا کی دیر نیہ خارجہ پالیسی سے میل نہیں کھاتے اور اپنے سابق پیشروئوں کے موقف سے قطعی مختلف ہیں۔خاصکر مسئلہ کشمیر سے متعلق انور ابراہیم کا بیان جہاں حیران کن ہے وہیں بین الاقوامی اصول و قانون سے یکسر برعکس ہے۔حالانکہ ملائیشیا کے ہی سابق وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے 05اگست2019میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس سے اپنے خطاب میں بڑے نپے تلے اندازمیں جہاں مودی کے 05اگست کے اقدام کی دھجیاں اڑا دی تھیں وہیں یہ بھی کہا تھا کہ بھارتی افواج نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے۔ لہذا یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ڈاکٹر مہاتیر محمد کے اس بیان پر بھارت نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور ملائیشیا سے پام آئل کے آرڈر تک منسوخ کیے تھے تو جناب مہاتیر محمد نے اس پر بڑا تاریخ ساز جملہ کہا تھا کہ ہم اپنے دل اور دماغ سے بولتے ہیں۔ اپنی پارلیمنٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مہاتیر محمد نے کہا کہ وہ سوچ سمجھ کر بات کرتے ہیں اور نہ تو اسے تبدیل کرتے ہیں ،نہ ہی واپس لیتے ہیں۔”ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ورنہ اقوام متحدہ کا فائدہ کیا ہے؟”لہذا انور ابراہیم کو اپنے بیان سے رجوع کرنا چاہیے۔انورابراہیم کے اس بیان پر امریکہ میں مقیم اہل کشمیر کے زیرک سفیر، اسکالر اور ورلڈ فورم فار پیس اینڈ جسٹس کے چیئرمین ڈاکٹر غلام نبی فائی نے ملائیشیا کے وزیر اعظم داتو سری انور ابراہیم کے نام ایک کھلا خط جاری کیا ہے جس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ مسئلہ کشمیر، فلسطین کاز کی طرح ہی ایک دیرینہ تشویش والا معاملہ ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے تسلیم شدہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔اپنے خط میں ڈاکٹرفائی نے وزیراعظم انور ابراہیم کی جانب سے فلسطین کی مستقل حمایت اور انسانی مسائل سے متعلق عالمی منافقت پر ان کے تنقیدی موقف کی جہاں تعریف کی،وہیں ڈاکٹرفائی نے ان کے ان تبصروں پر تشویش کا اظہار کیا جن میں مسئلہ کشمیر کو صرف بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ تجویز کیا ہے کہ بین الاقوامی امور میں ملائیشین وزیر اعظم کی مہارت کے پیش نظر یہ غلط حوالہ ہو سکتا ہے۔ڈاکٹر فائی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تنازعہ کشمیر بنیادی طور پر حق خودارادیت سے متعلق مسئلہ ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد میں اس کی تصدیق کی ہے، نہ کہ محض ایک علاقائی تنازعہ۔ لہذا ہم وزیر اعظم انور ابراہیم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملائیشیا کے اصل موقف کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیکر کشمیری عوام کی حقیقی امنگوں کے مطابق اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی حمایت کریں،تاکہ مسئلہ کشمیر کی موجودگی کے باعث اس خطے کو متاثر کرنے والے شدید انسانی بحران سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔23 اگست کو ملائیشیا کے وزیر اعظم داتو سری انور ابراہیم کے نام ڈاکٹر فائی کے خط کا مکمل متن درج ذیل ہے۔
ڈاکٹر فائی لکھتے ہیں کہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے زائدعرصے سے فلسطین کے کاز کو آگے بڑھانے میں آپ کی غیر معمولی انتھک کوششوں پر امت آپ کی شکر گزار ہے۔ آپ اسرائیل فلسطین تنازعہ کیلئے ‘دو ریاستی حل’ کی وکالت کرتے رہے ہیں۔17 اکتوبر 2023 میں ٹوکیو میں "نکی ایشیا” کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران آپ نے غزہ کے بارے میں کہا، "میں اس منافقت سے بیمار ہوں۔ یہ سیاست نہیں ہے۔” "یہ انسانی مسائل ہیں۔ میں کہوں گا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کو فروغ دینے والے بہت سے نام نہاد ممالک میں ایسی ہی منافقت ہو رہی ہے۔ساوتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے 7 مارچ 2024 میں رپورٹ کیا کہ آپ نے اسرائیل-غزہ جنگ میں بین الاقوامی قوانین کیساتھ مغرب کی عدم مطابقت پر تنقید کی۔ آپ نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کی لیکن غزہ میں جنگ بندی کی حمایت نہ کرنے پر مغرب کی منافقت کو بھی بے نقاب کیا۔آپ نے 22 اگست 2024 میں نئی دہلی میں انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرزICWAکے تھنک ٹینک میں کہا، "میرے خیال میں ہم جو کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ صرف کم از کم ایک پیغام دینا ہے، ایک بہت واضح پیغام، کہ یہ منافقت ختم ہونی چاہیے۔میرا مطلب ہے، آپ یوکرین میں کچھ دیہاتوں پر بمباری کی وجہ سے نسل کشی کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ اور غزہ میں40,000 لوگ مارے گئے، ٹھیک ہے، یہ جنگ کا اثر ہے، ہم اسے معاف کر سکتے ہیں۔ یہ چونکا دینے والی بات ہے اور میں اسے سراسر منافقت کہتا ہوں لیکن لڑنے کیلئے کھڑا نہیں ہونا اسے ختم ہونا ہے۔ڈاکٹر فائی لکھتے ہیں کہ جناب وزیر اعظم، غیر ملکی قبضے کے ظلم کے خلاف اور اپنے حقوق کے حصول کیلئے اپنی جدوجہد میں کشمیری عوام آپ جیسے با ضمیر اور فکر رکھنے والے قائدین کی حمایت کے خواہاں ہیں جو اپنی آزادی اور انسانی وقار کیلئے کھڑے ہیں۔ کشمیری عوام کو احساس ہے کہ ان کے مقصد میں کامیابی اور مصائب کے خاتمے کیلئے فطری ہمدردی مسئلہ کشمیر کو یا تو علیحدہ مسئلہ یا بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک علاقائی تنازعہ کے طور پر تصور کرنے سے روکتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔اس میں شامل مسئلہ اولین اور سب سے اہم مسئلہ ایسے لوگوں کے حق خود ارادیت کا ہے جن کی اپنی ایک متعین کردہ تاریخ اور قومی کردار ہے۔سب سے پہلا مسئلہ ان کے مستقبل کے تعین کے حق کو اقوام متحدہ نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی یہ قراردادیں معمول کی نوعیت کی نہیں ہیں۔ ان کے متن پر بھارت اور پاکستان کے درمیان باریک بینی سے بات چیت ہوئی۔ دو حکومتوں کی رضا مندی اقوام متحدہ کو تحریری طور پر پہنچا دی گئی۔ اس طرح وہ نہ صرف ایک پختہ ذہن کیساتھ جان بوجھ کر سمجھوتہ کرتے ہیں بلکہ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے یکے بعد دیگرے نمائندوں کی طرف سے بار بار اس کی توثیق کی جاتی رہی ہے۔ یہ قراردادیں کشمیری عوام کے اپنے وطن کی مستقبل کی حیثیت کا تعین کرنے کے حق کو واضح طور پر تسلیم کرتی ہیں۔ یہ حق قراردادوں کی دفعات کے دونوں ا طراف سے عدم کارکردگی سے متاثر نہیں ہوتا ہے۔ہم حیران ہیں کہ جہاں داتو سری انور ابراہیم جیسے با ضمیر رہنما غزہ کے معاملے میں عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار اور منافقت پر تنقید کر رہے ہیں، وہیں مسئلہ کشمیر جو فلسطین کا مقدمہ جیسا اتنا ہی پرانا ہے جتنا اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر زیر التوا مسئلہ فلسطین ہے۔ ، فراموش کر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر فائی لکھتے ہیں کہ عزت مآب وزیر اعظم، آپ کیلئے اطلاع ہے کہ آپ نے 22 اگست 2024 میں ‘انڈیا ٹوڈے ایکسکلوسیو’ کو انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ "میں اب بھی مسئلہ کشمیر کو بھارت کا خالصتا اندروانی مسئلہ سمجھتا ہوں۔” بین الاقوامی امور کے بارے میں آپ کی مہارت اور علم کے پیش نظر یہ غلط حوالہ ہو سکتا ہے۔اگرچہ ہم غزہ کے بارے میں آپ کے موقف کے مثبت انداز فکر کو سراہتے ہیں، لیکن ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہمارے علم کے مطابق ہم آپ کی توجہ درج ذیل اہم نکات کی طرف مبذول کرانے میں ناکام رہے تو ہم اپنے فرض میں کوتاہی کریں گے۔ ہم اقوام متحدہ میں ان تحفظات سے واقف نہیں ہیں جن کی وجہ سے آپ یہ کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ تاہم،مسئلہ کشمیر جو آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ یہ آپ کے وسیع پیمانے پر تعریف شدہ بیانات کے بالکل برعکس ہے کہ ہمیں بین الاقوامی تنازعات سے نمٹنے میں دوہرے معیار اور منافقت کو ختم کرنا ہوگا۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ملائیشیا اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر جو کہ جموں و کشمیر کی سرزمین کی حیثیت سے متعلق ہے۔ ایسا مسئلہ جو اقوام متحدہ کے فعال ایجنڈے میں شامل ہو اور جو سلامتی کونسل کی چودہ ٹھوس قراردادوں کا موضوع رہا ہو، ایسا مسئلہ نہیں لگتا جو ملائیشیا کے وزیراعظم کی توجہ کا مستحق ہو۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مشیل بیچلیٹ، اقوام متحدہ کی سابق ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے 14 جون 2018 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال کے بارے میں 49 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی تھی، جس میں انہوں نے بھارت اور پاکستان دونوں کیلئے سفارشات تیار کی تھیں کہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کیلئے جس سے بین الاقوامی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے،کا احترام کریں۔جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے 8 اگست 2019 میں کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قابل اطلاق قراردادوں کے تحت حل کیا جانا چاہیے۔داتو سری انور ابراہیم، ہم کسی بھی طرح سے اس حقیقت سے غافل نہیں ہیں کہ ملائیشیا کے رہنما کی حیثیت سے جس کی 10 فیصد سے زیادہ آبادی بھارتی نژاد ہے، آپ کو متعلقہ فریقوں کے درمیان غیر جانبدار رہنا ہوگا اور سمجھا جاتا ہے۔ آپ ہیں تاہم یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تسلیم شدہ اصولوں، بین الاقوامی معاہدوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے احترام کی بنیاد پر ہے کہ ہم آپ سے اس اپیل کیساتھ خط لکھتے ہیں کہ آپ اپنے اچھے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے بھارت، پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر کے تمام علاقوں کے لوگوں کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ایسا حل تلاش کر یں جوبھارت و پاکستان اور حقیقی کشمیری قیادت کے اطمینان کے مطابق ہو۔آپ نے ICWA پریس انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ "یہ وہ ملک ہے جو گاندھی جیسے رہنما پیدا کرتا ہے، جو یقینا آزادی، انصاف، انسانیت کیلئے اپنی جنگ میں منفرد ہے۔” جناب وزیراعظم، آئیے گاندھی کی بات سنیں جنہوں نے 31 جولائی 1947 میں کہا تھا، کشمیری عوام سے پوچھا جانا چاہیے کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں۔ وہ جیسا چاہیں انہیں کرنے دیں۔ حکمران کچھ نہیں ہوتا۔ عوام ہی سب کچھ ہیں۔”گاندھی نے 26 اکتوبر 1947 میں پھر ایکبار کہا، "اگر کشمیر ی عوام پاکستان کا انتخاب کرنے کے حق میں ہیں، تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں ایسا کرنے سے نہیں روک سکتی۔ لیکن انہیں خود فیصلہ کرنے کیلئے آزاد چھوڑ دینا چاہیے۔ لوگوں پر حملہ کر کے ان کے گاوں جلا کر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔پھر مہاتما گاندھی نے دوبارہ کہا کہ جموں و کشمیر کے اصل حکمران اس کے لوگ تھے نہ کہ اس کے مہاراجہ۔ مہاراجے عوام کے خادم تھے۔ کشمیری عوام کو خود فیصلہ کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ برطانوی مورخ "برٹرینڈ رسل "نے 1964 میں کیا کہا تھا، بین الاقوامی معاملات میں بھارتی حکومت کی اعلی آئیڈیل ازم مسئلہ کشمیر کے سوال پر پوری طرح ٹوٹ جاتی ہے۔مسٹر وزیر اعظم، اب پہلے سے کہیں زیادہ ہمیں ملائیشیا کی حمایت کی ضرورت ہے جب جینوسائیڈ واچ کے چیئرمین” ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن یہ کہتے ہیں ، کہ جموں و کشمیر نسل کشی کے دہانے پر ہے”، نیویارک میں قائم ‘کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس’ کے مطابق، "جموں وکشمیر میں میڈیا معدومیت کے دہانے پر ہے،” اور نیویارک ٹائمز کے مطابق، "جموں وکشمیر جو کہ دنیا سے کٹا ہوا ‘ایک زندہ جہنم میں تبدیل ہوچکا ہے۔”