مقبوضہ کشمیرمیں بڑے پیمانے پر کشمیریوں کی جبری گمشدگیوں کی شدید مذمت
اسلام آباد:بین الاقوامی ماہرین اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر جبری گمشدگیوں کی شدیدمذمت کرتے ہوئے اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق جبری گمشدگیوں کے بارے میں جنیوا میں میں 15جنوری کو دوروزہ عالمی کانگریس منعقد کی گئی ۔ کانگریس میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو رکوانے کے لیے عالمی عزم کا اعادہ کیاگیا۔اس دوران جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد سے متعلق بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری، انکی تلاش کے طریقہ کار کو مضبوط کرنے اور متاثرین،انسانی حقوق کے علمبرداروں وکلا اور صحافیوں کی جبری گمشدگیوں سے تحفظ جیسے موضوعات پر تفصیلی غور کیاگیا۔کشمیر میں جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی واضح مثال ہیں ۔1989سے اب تک 10ہزار سے زائدکشمیریوں کو بھارتی فوج نے حراست کے دوران لاپتہ کردیا ہے ۔جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی اور دوران حراست لاپتہ کشمیریوں کے والدین کی تنظیم ”اے پی ڈی پی”جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیریوں کے بھارتی فوج کی حراست میں لاپتہ ہونے کے واقعات کو دستاویزی شکل دینے پر سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کے علمبرداروں خرم پرویز اور پروینہ آہنگر کو بین الاقوامی فورموں پر کشمیریوں کی آواز بلند کرنے سے روکنے کیلئے غیر قانونی طورپرقیداوردیگرپابندیوں کا سامنا ہے ۔کشمیر میں انسانی حقوق اور انصاف کے بارے میں انٹرنیشنل پیپلز ٹربیونل کی تحقیقات میں اجتماعی قبروں میں 2ہزار9سوسے زائد کشمیریوں کی موجودگی کا انکشاف کیاگیا جن میں کی اکثریت کو مجاہدین قراردیکر شہید کردگیاہے۔آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت بھارتی فوجیوں کو مقبوضہ علاقے میں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کی کھلی چھوٹ حاصل ہے ۔دوران حراست لاپتہ ہونے والے کشمیریوں کے خاندان خاص طور پربیویوں کونفسیاتی، سماجی اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔کانگریس کے مقررین نے عالمی برادری پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت کوجوابدہ بنانے کا مطالبہ کیا اور کشمیر میں جبری گمشدگیوں اور گمنام اجتماعی قبروںکی فوری آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔