سرینگر میں 8 محرم الحرام کاجلوس فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے مظاہرے میں تبدیل
سرینگر: غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر میں 8 محرم الحرام کاجلوس فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے مظاہرے میں تبدیل ہوگیا جہاںعزاداروں نے فلسطینی پرچم لہرا کر اور اسرائیل مخالف نعرے لگا کر قابض حکام کی ہدایات کو ہوامیں اڑادیا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق قابض حکام نے غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد سے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں پر سختی سے پابندی عائد کر رکھی ہے، یہاں تک کہ فلسطین کی حمایت کو روکنے کے لیے تاریخی جامع مسجد کو بھی متعدد بار بند کر دیاگیا۔سرینگر میںآٹھ محرم کا روایتی جلوس گرو بازار سے شروع ہوا جو جہانگیر چوک سے گزرتاہوا ڈل گیٹ پر اختتام پذیر ہوا۔ بہت سے شرکاء نے فلسطینی پرچم لہرائے اور شہر کے مرکز سے مارچ کرتے ہوئے فلسطین کے حق میں نعرے لگائے۔ متعدد نوجوانوں نے فلسطین کے جھنڈے والے بیجز لگا رکھے تھے۔عزاداروںمیں شامل علی سیف الدین نے کہاکہ کربلا ہمیں حق کے لیے اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا درس دیتا ہے۔ غزہ جدید دور کا کربلا بن چکا ہے جہاں اسرائیل فلسطینیوں کو قتل کر رہاہے۔ ان کی حمایت کرنا ہمارا فرض ہے اور ہم کم سے کم یہ تو کر سکتے ہیں۔ایک اورعزادار عامر علی نے کہا کہ غزہ میں بگڑتے ہوئے انسانی بحران نے کشمیریوں کو اپنی خاموشی توڑنے اور بولنے پر مجبور کر دیا ہے۔اس سے قبل ایک ممتاز شیعہ عالم دین آغا سید محمد ہادی نے جس کے سوشل میڈیا پر کافی فالورزہیں، رواں سال محرم کی تقریبات اور جلوسوں کے دوران فلسطینیوں کی حمایت کرنے پر زوردیاتھا۔انہوں نے کہاکہ اگر ہم ان تقریبات میں مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار نہیں کرسکتے تو یہ تمام اجتماعات اپنا مقصد کھو دیں گے۔قابض حکام نے1990کی دہائی کے اوائل میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد شروع ہونے کے بعد 8اور 10 محرم کے مرکزی جلوسوں پر پابندی عائد کردی تھی کیونکہ حکام کو خدشہ تھا کہ یہ جلوس بھارت مخالف مظاہروں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ قابض حکام نے 35سال بعد گزشتہ سال8 محرم کے جلوس پر پابندی تو اٹھا لی تاہم سخت شرائط عائد کررکھی ہیں جن میں بھارت مخالف تقاریر یا سرگرمیوں اور فلسطین کے حق میں نعروں یا تصاویر والے جھنڈوں پر پابندی شامل ہے۔