بھارت میں احتجاجی کسانوں کے خلاف طاقت کے استعمال نے ان کا غم وغصہ مزید بڑھا دیا
اسلام آباد 31 اگست (کے ایم ایس) بھارتی ریاست ہریانہ کے شہر کرنال میں پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کے نتیجے میں ایک کسان کی موت نے بھارت میں احتجاج کرنے والے کسانوں کا غم وغصہ مزید بڑھا دیا ہے۔
کشمیرمیڈیا سروس کی طرف سے آج جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ہریانہ کے وزیر اعلی اور بی جے پی کے رہنما منوہر لال کھتر کی طرف سے کسانوں کے خلاف پولیس کارروائی کے دفاع نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔بھارتی پولیس نے ہفتے کے روز ہریانہ میں احتجاجی مظاہرہ کرنے والے کسانوں پر لاٹھی چارج کیاتھا جس کے نتیجے میں ایک کسان ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہوگئے تھے۔ ہریانہ میں احتجاجی کسانوں پر پولیس کارروائی کے خلاف پنجاب میں تمام ہائی ویز کو بند کیا گیا تھا۔ ہریانہ کے کرنال شہر میں کسانوں کے خلاف طاقت کے وحشیانہ استعمال پر پنجاب میں مظاہرین نے بی جے پی کی زیر قیادت ہریانہ حکومت کے پتلے نذرآتش کئے ۔ پنجاب میں کانگریس پارٹی کے صدر نوجوت سنگھ سدھونے ایک بیان میں کسانوں کے خلاف پولیس کارروائی کو ہر بھارتی کے بنیادی حقوق پر حملہ قراردیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 3 نومبر 2020 سے تین زرعی قوانین کے خلاف جاری احتجاجی تحریک کے دوران سینکڑوں کسان اپنی جانوںسے ہاتھوں دھو بیٹھے ہیں اور مودی کے زرعی اصلاحات سے بھارت کے کسانوں کی مشکلات میں صرف اضافہ ہواہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بھارتی کسان شدید غصے میں ہیں کیونکہ مودی کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ کسانوں کی40 سے زائد یونینوں کے مشترکہ پلیٹ فارم سنیوکت کسان مورچہ نے تین متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف اپنی جدوجہد کو تیزکرنے کے لئے 25 ستمبر کو بھارت بھر میں ہڑتال کی کال دی ہے۔ ماہرین نے مودی حکومت کی طرف سے نئی زرعی اصلاحات کو کسانوں کے لئے موت کا فرمان قرار دیا ہے۔ بھارتی کسانوں نے اپنی احتجاجی تحریک کو اس وقت تک جاری رکھنے کا عزم کررکھا ہے جب تک مودی حکومت تینوں زرعی قوانین کو منسوخ نہیں کرتی ۔