بھارت کی نوآبادکاری سے کشمیریوں کی بقا کو خطرہ لاحق ہے
کوٹلی06جنوری(کے ایم ایس)
کوٹلی میں ایک سیمینار کے مقررین نے سے اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ متنازعہ علاقے جموں و کشمیر میں بھارت کی آبادکاری کی حکمت عملیوں پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق یونیورسٹی آف کوٹلی آزاد کشمیر اور کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے مشترکہ زیر اہتمام ایک سیمینار منعقد کیاگیا جس کا عنوان تھا ”کشمیرمیں بھارت کی نوآبادکاری ، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف وزی ”۔کوٹلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر د ل نواز گردیزوی نے سیمینار کی صدارت کی۔ سیمینار سے انسانی حقوق کے ممتازکارکنوں، سکالرز، ماہرین تعلیم، بین الاقوامی قانون کے ماہرین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے نمائندوں بشمول کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف حسین وانی،ڈی جی کشمیر لبریشن سیل ڈاکٹر اویس بن وصی، ایڈووکیٹ محمود قریشی، ڈاکٹر مشتاق، ڈاکٹر پروفیسر افتخار بٹ، پروفیسر، ڈاکٹر اسد حسین شاہ، ڈاکٹر شگفتہ اشرف اور دیگر نے خطاب کیا۔ مقررین نے کہا کہ مودی حکومت کی ان پالیسیوں کا مقصد مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن سمیت بین الاقوامی قوانین کی صریحاًخلاف ورزی ہے۔بھارت کے نوآبادیاتی نظام کے خطرناک پہلوئوں اور کشمیری معاشرے پر اس کے تباہ کن اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بھارتی حکومتوں نے مسلسل مذہبی طور پر نوآبادیاتی سیاست کوپروان چڑھایا جو موجودہ بی جے پی حکومت کی صیہونی طرز کی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہو گئی ہیں جن کا مقصد مقبوضہ علاقے پر بھارت کے غیر قانونی تسلط کو طول دینا، اس کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار اور کشمیری عوام کوانکے حق خودارادیت سے محروم رکھنا ہے ۔5 اگست 2019کے مودی حکومت کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدام کا ذکر کرتے ہوئے مقررین نے کہاکہ یہ ہندوستانی ریاست کی سازشوں کی ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح بھارت نے کشمیریوں کی سیاسی ، ثقافتی اورقومی شناخت مٹانے کے لیے پارلیمنٹ اور عدلیہ سمیت جابرانہ ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال کیا ۔انہوں نے کہاکہ جموں وکشمیر کو اس کی خود مختار حیثیت سے محروم کرنا بھارت کی کشمیر کو نوآبادیاتی بنانے کی طویل تاریخ میں ایک اور قدم تھا۔نئے کشمیر مخالف قوانین کے بارے میں مقررین نے کہا کہ فرقہ پرست بھارتی حکومت نے مقبوضہ علاقے میں نافذ200سے زائد قوانین میں ترامیم یا تبدیلی کی ہے جس نے متنازعہ علاقے کی پوری شناخت تبدیل ہو کر رہ گئی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ، ریاستی قوانین میں بڑے پیمانے پرتبدیلیاں کی گئیں اور بھارتی شہریوںکو زمینوں کی خریداری اور شہریت حاصل کرنے کیلئے مقبوضہ علاقے کوکھول دیاگیا ہے ۔