ہندو فسطائیت کی شکل میں نازی ازم کا احیاءاورعالمی برادری کی بے حسی
از:-ارشد میر
ہندو انتہاء پسند تنظیموں کی نظریاتی ماں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ایک حالیہ انٹرویو میں ایک بار پھر اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی مسلمانوں کو کھلے عام دشمن قرار دیا اور کہا کہ بھارتی معاشرہ ایک صدی سے اپنے اندر موجود عناصر کے خلاف برسرپیکار ہے ۔بھاگوت نے جہاں ایک طرف یہ کہا کہ مسلمانوں کو اپنی بالادستی کا بیانیہ ترک کرنا ہوگا تو وہیں دوسرے لمحے میں ہندو مذہب کو بہترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں ، عیسائیوں، اور دیگر مذاہب کے علاوہ کمیونسٹس اور کیپٹلسٹس غرض کہ سب کو سناتن دھرم یا ہندومت کی راہ اختیار کرنی ہوگی کیونکہ بقول ان کے” ہم ہی صحیح ہیں، ہمارے رحم و کرم پر رہو، یا پھر ہم تمہیں تباہ کر دیں گے۔”
اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم مجلس نے اسے بھارت کے آئین اور تاریخی حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔مجلس کے قومی صدر پروفیسر بصیر احمد خان نے ایک بیان میں کہا کہ آرایس ایس اور اسکی ذیلی سیاسی تنظیم بی جے پی کو صرف آٹھ برس کے اقتدار سے اس قدر گھمنڈ ہو گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہدایات دینے لگے ہیں کہ انہیں ملک میں کس طرح رہنا چاہیے ، کیا کرنا چاہیے اور کیانہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے اسے مسلمانوں کی توہین قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان بھارت میں کسی کی اجازت سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے رہ رہے ہیں اور بیس پچیس کروڑ لوگوںکو نکالنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کے موجود ہ سربراہ نے اندروانی دشمنوں سے لڑنے کی بات کہہ کر دراصل گورو گولوار کر کے الفاظ دہرائے ہیں کہ مسلمان ، عیسائی اور کمیونسٹ ملک کے دشمن ہیں ، پروفیسر بصیر نے کہا کہ یہ سوچ ملک کے اتحاد اور سالمیت کیلئے خطرناک ہے ۔
موہن بھاگوت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان سمیت دیگر تمام ہندو دہشت گرد تنظیموں کی روزی روٹی اسی تعصب اورمنافرت میں ہے تو بے جا نہ ہوگا۔یہ آئے روز اورکھلے عام غیر ہندوؤں خاص طور پر مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہوتے ہیں مگر ملک کا قانون اور انتظامی مشینری ان پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔اگر ایک طرف پورے شعور، مطالعہ، تجربہ اور رغب کے ساتھ کوئی ہندو اسلام یا کوئی دوسرا مذہب اختیار کرتا ہے یا کوئی ہندو لڑکی غیر ہندو سے شادی کرتی ہے تو اسکو دوسرے مذہب کی طرف سے ہندو مت پر حملہ قرار دیتے ہوئے اسکے انسداد کے نام پر حالیہ عرصہ کے دوران بنائے گئے غیر جمہوری، ظالمانہ اور امتیازی قوانین کا اطلاق کرکے انکے خلاف سخت کاروائی کی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف ہندو جماعتوں کے رہنماء اور صوبوں کے وزراء تو دور، مرکزی حکومت تک کے وزراء بھارت کو ہندوراشٹر بنانے، مسلمانوں کو مٹانے یا بھگانے کی یا انھیں گھر واپسی کے نعرے کے تحت سناتن دھرم میں بقول انکے واپس لانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، بھارت میں رہنا ہے تو رام رام کہنا ہے جیسے نعرے لگاتے ہیں، خودکار ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہندو لڑکوں کو مسلم لڑکیوں کو پھساکر ان سے شادیاں رچانے کی ترغیب دیتے اور سرپرستی کرتے ہیں مگر اسی بھارت کے وہی قوانین اور ضابطے حرکت میں نہیں آتے۔
دیگر ہندو انتہاء پسندوں حتی کہ حکومتی وزراء اور مشیروں کے ساتھ ساتھ موہن بھاگوت بھی نسل پرستی اور نفرت پر مبنی زہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔
15 نومبر 2022 کو انھوں نے ریاست چھتیس گڑھ کے شہر امبیکاپور میں آر ایس ایس کے کارکنوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھار ت میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات ہم 1925 سے کرررہے ہیں۔تمام بھارتیوں کا ڈی این اے ایک جیسا ہے ،کسی کو اپنی رسومات ادا کرنے کا طریقہ تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
نومبر ہی میں بھاگوت نے آر ایس ایس کی سالانہ دسہرہ ریلی میں اپنی تقریر میں آبادی کے عدم توازن پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے ایک جامع پالیسی بنانے پر بھی زور دیا تھا۔ حالانکہ زمینی صورتحال اور سرکاری اعدادو شمار اسکے برعکس تصویر پیش کررہے ہیں۔ بھارت میں مجموعی طور پر فرٹیلیٹی ریٹ(TFR) دو فیصد تک گر گیا ہے۔ خاندانی صحت کے سرکاری سروے کے مطابق مسلمانوں میں TFR سب سے کم ہے۔جبکہ دوسری طرف ہندوؤں کے ہاں لڑکیوں کا پیدائش سے قبل یا فوری بعد قتل کئے جانے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2000 سے 2019 کے درمیان 90 لاکھ ہندو لڑکیوں کو پیدا نہیں ہونے دیا گیا۔ بچیوں کی پیدائش کے روکنے یا قتل کے اس رجحان پر یونیسیف گذشتہ 40 برسوں سے تشویش پر مبنی رپورٹس جاری کرتا ہے۔سنگھ پریوار اپنے غلیظ سیاسی اور فسطائی مقاصد کے تحت ہندؤں کو یہ خوف دلارہے ہوتے ہیں کہ 2050 میں مسلمانوں کی آبادی ہندؤں سے زیادہ ہوجائے گی۔ حالانکہ بھارت کامردم شماری کا ریکارڈ اور غیر سرکاری و بین الاقوامی تنظیموں کی تحقیق کے مطابق یہ سراسر جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔ بھارتی مردم شماری کے ریکارڈ کے مطابق 1951 سے 2011 تک ملک میں ہندؤں کی آبادی 30.4 کروڑ سے بڑھ کر96.6 کروڑ مسلمانوں کی 3.5 کروڑ سے 17.2 اور عیسائیوں کی آبادی 0.8 کروڈ سے بڑھ کر 2.8 تک پہنچی۔ امریکہ کے مشہور زمانہ PEW Research Centre کے مطابق 2050 میں بھارت کی کل آبادی کا ہندو 77%، مسلمان 18% اور عیسائی صرف 2% ہونگے۔ ان حقائق کے باوجود ہندو انتہاء پسند تنظیمیں جھوٹ بول کر ہندؤں کو گمراہ کررہی اور اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف اکسارہی ہیں۔
اکتوبر 22 میں موہن بھاگوت نے ناگپور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہندؤں سے کہا تھا کہ وہ کشمیر کو بھارت میں عملا اور مکمل طور پر ضم کرنے کی کوششیں کریں۔ انھوں نے کہاتھا کہ دفعہ 370کی منسوخی سے مسئلہ کشمیر مکمل طورپر حل نہیں ہو اہے اور اب بھی کشمیریوں کا ایک حصہ بھارت سے آزادی چاہتا ہے اور بھارتی سوسائٹی کو اس طبقے کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے کوششیں کرنی چاہئیں۔ اس پر کشمیر میں بھارت نواز خیمہ سے وابستہ لوگوں نے بھی کہا تھا کہ یہ اسبات کا مظہر ہے کہ مودی حکومت کشمیر میں آئین و قانون کے بجائے آر ایس ایس کے نظریہ کے تحت عمل کررہی ہے۔ اور یہ نظریہ جموں و کشمیر کو مکمل طور پر ہندو رنگ میں رنگنا ہے۔
آپکو یاد ہوگا اکتوبر کے اوائل ہی میں موہن بھاگوت نے مقبوضہ علاقہ کا دورہ کیا تھا۔ دفعہ 370 اور-A 35 کی منسوخی کے بعد RSS کے سرغنہ کا مقبوضہ جموںوکشمیر کا یہ پہلا دورہ تھا۔جموں کے معروف انگریزی روزنامے”Early Times” نے اپنی ایک رپورٹ اور سیاسی تجزیہ کاروں نے اپنے تجزیوں میں کہا تھا کہ RSS کا ہدف 2025 سے پہلے مقبوضہ جموں و کشمیر کو ہندو ریاست میں تبدیل کرناہے۔ 2025 میں چونکہ اس فسطائی تنظیم کےقیام کے 100 سال مکمل ہوجائیں گے چنانچہ منصوبہ یہ بنایا گیا کہ اس موقع پر جموں و کشمیر ہندو ریاست بن چکی ہو۔ بھاگوت نے اس دورے کے موقع پر منصوبے کا جائزہ لیا اورسنگھ پریوار کو اسکے لئے سرگرم ہونے کی ہدایت دی۔ آر ایس ایس وادی کشمیر میں ویران مندروں کی تزئین و آرائش اور ہمالیہ کی اونچی چوٹیوں پر نئی شاخوں کے قیام کے لیے لئے بھی کوشاں ہے۔ علاقے میں قدیم مندروں کوآباد کرنے پر آر ایس ایس اپنی2019کی سالانہ رپورٹ میں کہتا ہے ” پرمنڈل “ جموں سے 40 کلومیٹر دور دیویکا دریا کے کنارے ایک مقدس مقام ہے جوایک وقت سنسکرت سیکھنے کا مرکز تھا۔ بلکہ اس”مرکز”کی بحالی کے لیے ایک ٹرسٹ بھی تشکیل دیا جاچکاہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بھارت میں انتہا پسند ہندو رہنماؤں کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام کے علی الاعلان مطالبات کو شدید تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس انتہائی متعصبانہ رویئے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی دراصل اس کی حمایت ہے۔ رپورٹ میں فروری 2020ء میں مسلم کش بلوؤں کا بھی حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ ہندوتوا رہنماؤں سمیت حکمران جماعت کے منتخب رہنماؤں کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیز اقدامات کیے اور بیانات دئےجارہے ہیں۔مودی سرکار کے ہاتھ ان خونی دستانوں میں ہونے کے بارے میں بلکہ خود امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ موجود ہے جس میں کہا گیا کہ بھارت میں اقلیتوں پر حملوں میں ملوث افراد کو مودی سرکار تحفظ فراہم کررہی ہے۔
ہندوستان جس تیزی سے نفرت و عداوت، لاقانونیت، نسل پرستی، اکثریتی زعم، فسطائیت، شدت پسندی اور خوف و ہراس کی طرف بڑھ رہا ہے یہ نہ صرف انتہائی افسوسناک ہے بلکہ بھارت کی اپنی بقا اور پورے جنوبی ایشیاءکیلئے بھی خطرناک ہے۔ مقہن بھاگوت، مودی اور ہندو انتہاء پسند تنظیموں کے گماشتوں نے پورے ملک میں نفرت کا زہر گھول دیا ہے۔ ہر غیر ہندو یہاں تک کہ اعتدال و انصاف پسند ہندو بھی بے یقینی اور خوف و ہراس کی فضا میں سانس لے رہا ہے۔
موہن بھاگوت اور دیگر ہندو انتہاء پسند لیڈروں کے یہ خطرناک بیانات، ملک میں اقلیتوں، خاص کر مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالیوں، ان کی عبادت گاہوں پر حملوں، کئی ریاستی حکومتوں کی جانب سے مسلمان مخالف قانون سازی اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والے دیگر مظالم کے ساتھ ساتھ بدترین ہوتا ہوا اسلاموفوبیا بھارت میں مسلمانوں کی قابل رحم حالت کی نشان دہی کر رہا ہے۔ مسلہ کشمیر پہلے ہی اس خطے میں نزاع ، کشیدگی، جنگوں، بے اعتمادی، فوج و اسلحہ سازی کی وجہ بنا ہوا ہے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن اس زمانے میں اسے ایٹمی فلیش پوائنٹ قرار دے چکے۔ اس پہ مستزاد جب بھارت ہندو فسطائیت کی لپیٹ میں آچکا، کئی مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ نازی ازم کی موجودہ شکل ہے۔ گجرات کا قصائی اورمذہبی منافرت و نسل پرستی میں گھلا ہوا شخص حکمران بن چکا،اتنی بڑی فوج اور ایٹمی ہتھیار انکے اشاروں کے تابع ہوچکے تو عالمی برادری کیسے چین کی بانسری بجا کے بیٹھی رہے گی؟ اسکو کس بات کا انتظار ہے؟ جنوسائڈ واچ کے سربراہ گریگری اسٹنٹن مسلسل انتباہ دے رہے ہیں کہ بھارت تاریخ کی ایک اور مہیب نسل کشی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری معاشی اور اسٹریٹیجک مصلحتوں کے خول سے نکل مسلہ کشمیر حل کرائے اور اس ہندو انتہاء پسندی کے عفریت کو یہیں پہ روکتے ہوئے بھارتی اقلیتوں خاص کر 25 کروڈ مسلمانوں کے تحفظ کا سامان کرے۔بھارت کے ذریعہ چین کو روکنے سے زیادہ اہم بھارت کی جانب سے انسانیت کے خلاف بڑھتے ہوئے مہیب خطرات کو روکنا ہے ۔یہی قرین انسانیت اور اس کے لئے پرامن ماحول کا متقاضی ہے۔