بھارت :اتراکھنڈ میں مسلمانوں کو علاقہ خالی کرنے کی دھمکی
دہرادون:بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں مساجد اور مسلمانوں کے خلاف مہم کے بعد بی جے پی کے زیر اقتدارریاست اتراکھنڈ میں بھی ہندو انتہاپسند سرگرم ہوگئے ہیں جہاں تاجروں کی ایک تنظیم نے مسلمانوں کو 31دسمبرتک چمولی سے نکل جانے کی دھمکی دی ہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق انتہاپسندوں نے مقامی ہندوآبادی کو بھی وارننگ دی ہے کہ اگر کوئی مسلمانوں کو کرائے پر مکان دیتا ہے تو اس پر 10ہزار روپے تک کا جرمانہ عائد ہوسکتاہے۔ یہ مسلمان خاندان خانسرکے علاقے میں دہائیوں سے آباد ہیں۔ شرپسندوں نے پہلے خانسر میں ریلی نکالی، اس کے بعد ایک قرار داد منظور کرکے مسلمانوں کو الٹی میٹم دیاکہ وہ31 دسمبر تک یہاں سے نکل جائیں ،ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ انتہا پسندوں نے یہ بھی دھمکی دی کہ اگر مقررہ تاریخ تک مسلمان یہاں سے نہیں نکلتے تو نہ صرف ان کے خلاف بلکہ انہیں کرایہ پر مکان اور دوکان دینے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائیگی۔ ریلی کے دوران ہندو انتہاپسندوں نے اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے۔ویاپار منڈل کے نام سے جاری کئے گئے اس الٹی میٹم کی کاپی سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہورہی ہے۔تاہم حیرت انگیز طورپر انتظامیہ نے ایسے کسی الٹی میٹم سے لاعلمی کااظہار کیا ہے۔ صحافیوںنے جب مذکورہ دھمکی کے حوالے سے چمولی کے ایس پی سرویش پنوار سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایسے کسی واقعے کا علم ہونے سے انکار کیا۔ پنوار نے کہاکہ ہم معاملے کی تحقیقات کریں گے اور اگر ضرورت پڑی تو مناسب قانونی کارروائی کریں گے۔ قرار داد پر ویاپار سنگھ مئیتھن کی مہر بھی لگی ہوئی ہے جبکہ کئی لوگوں کے نام اور موبائل نمبربھی درج ہیں۔ اسی کے ساتھ خانسر میں مسلمانوں کو پھیری کا کام کرنے سے بھی روکا گیا ہے اور دھمکی دی گئی ہے کہ اگر کوئی مسلمان پھیری کا کام کرتے ہوئے پکڑا گیا تو اس پر10 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا جائے گا اور اس کو سخت قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حالانکہ شرپسندوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ وہ کس طرح سے قانونی کارروائی کرسکتے ہیں جبکہ اس طرح کی دھمکی اور الٹی میٹم دینا خود سرار غیرقانونی ہے۔ ادھر مسلمانوں کا کہناہے کہ انتہا پسندوں کی یہ حرکت نہ صرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے بلکہ ذاتی کاروباری مفادات کی وجہ سے انہیں یہاں سے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔واضح رہے کہ اتراکھنڈ میں یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے۔ بلکہ وقفے وقفے سے یہاں مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ جاری رہتاہے۔