بھارتی سپریم کورٹ نے ‘بلڈوزر جسٹس ‘کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قراردیدیا
نئی دلی:
بھارتی سپریم کورٹ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتوں کی طرف سے کسی بھی شخص پر الزام لگنے یا جرم ثابت ہونے کے بعد اس کاگھر بلڈوزر سے گرائے جانے کو انسانی حقوق کے خلاف اور ماورائے قانون قرار دے دیا۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق جسٹس بی آر گوائی اور کے وی وشواناتھن پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے بلڈوزر جسٹس کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے انتظامیہ کو قانونی عمل کی پیروی کے بغیر کسی کا گھر گرانے سے روک دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کسی بھی گھر کو گرانے سے 15دن قبل نوٹس دے گی اور نوٹس میں گھر کی غیر قانونی تعمیر، مجوزہ قانون کی خلاف ورزی اور گھر گرانے کی مخصوص وجہ بتائی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ انتظامیہ عدلیہ کا اختیار خود استعمال کرکے کسی کو مجرم قرار دے کر اس کا گھر نہیں گرا سکتی، گھر گرا کر لوگوں کو اجتماعی سزا دینا ٹھیک نہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ نے جمیعت علما ہند اور دیگر کی جانب سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔
واضح رہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں زمین خالی کرانے کیلئے بلڈوزر کے ذریعے لوگوں خصوصا مسلمانوںکے گھروں کومسمار کر رہی ہیں اور اس کارروائی کو بلڈوزر جسٹس کا نام دیاگیاہے۔ ‘بلڈوزر جسٹس’ کے تحت کسی بھی شخص پر محض الزام لگا کراس کا گھر گرادیا جاتا ہے اور جبکہ جن ریاستوں میں محض الزام کی بنیاد پر گھر گرائے گئے ان میں سے اکثریت میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ سال 2022میں ریاست مدھیہ پردیش میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے بعد بہت سے مسلمانوں کے گھروں کو بغیر کوئی الزام ثابت ہوئے بلڈوزروں سے گرادیا گیا تھا۔
اتر پردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ کے وزارت اعلی سنبھالنے کے بعد بلڈوزر جسٹس کے بہت سے واقعات سامنے آئے جن میں زیادہ تر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔