آصف سلطان کی بار بار گرفتاری مقبوضہ کشمیرمیں میڈیا کی آزادی کی ابتر صورتحال کی ایک واضح مثال ہے، جاپانی اخبار
ٹوکیو 17اپریل ( کے ایم ایس ) جاپان کے سب سے پرانے کثیر الاشاعت انگریزی اخبار” جاپان ٹائمز“ نے اپنی تازہ ترین اشاعت میں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں صحافت کی حالت زار کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ صحافی آصف سلطان کی مختلف کالے قوانین کے تحت بار بار گرفتاری مقبوضہ علاقے میں میڈیا کی آزادی کی ابتر صورتحال کی ایک واضح مثال ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق اخبار نے Suhasini Rajکا ایک مضمون شائع کیا جس میں مصنف نے کہا تقریباً چار سال تک جیل میں رہنے کے بعد کشمیری صحافی آصف سلطان کو گزشتہ ہفتے عدالتوں نے ضمانت دے دی اور انہوں نے سوچا کہ وہ بالآخر اپنی اہلیہ اور اپنی بیٹی کے پاس گھر واپس آ سکتے ہیںلیکن بھارتی حکام نے انہیں جانے نہیں دیا اور دیگر الزامات کے تحت دوبارہ جیل بھجوا دیا۔ حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بھارتی حکام نے آزادی اظہار کو محدود کرنے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے قانونی نظام کو ہتھیار بنایا ہے ۔مضمون میں مزید کہا گیاکہ کچھ کو ایسے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جو لوگوں کو بغیر کسی مقدمے کے طویل مدت تک قید رکھنے کی اجازت دیتے ہیں اور جو ضمانت کی شرائط کو انتہائی مشکل اور بعض اوقات ناممکن بنا دیتے ہیں۔آصف سلطان کو اب کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا ہے جس کے بارے میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کا استدلال ہے کہ یہ قانون بین الاقوامی انسانی حقوق کے منافی ہے۔ سرینگر کی ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے والے ایک وکیل شفقت نذیر نے کہاپبلک سیفٹی ایکٹ اس خدشے پر مبنی ہے کہ کوئی غیر قانونی کام کر سکتا ہے اور یہ نہیں کہ کسی نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہو۔ کوئی بھی محض اس خدشہ کی بنیاد پر دو سال تک جیل میں سڑ سکتا ہے۔دی کشمیر والا نامی نیوز ویب سائٹ کے چیف ایڈیٹر فہد شاہ کو پہلی بار رواں برس فروری میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن عدالت کی طرف سے ضمانت ملنے کے بعد انہیں اب تک پھر سے تین بار دوبارہ گرفتار کیا جاچکا ہے۔مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق دی کشمیر والا کے ایک ٹرینی رپورٹر سجاد گل کو 5 جنوری کو ایک ویڈیو اپ لوڈ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا جوانہوں نے ایک مقتول عسکریت پسند کے خاندان کی ریکارڈ کی تھی جس میں وہ بھارت مخالف نعرے لگا رہے تھے۔انہیں 10 دن بعد ضمانت مل گئی لیکن رہائی سے پہلے حکام نے انہیں مطلع کیا کہ انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند رکھا جائے گا۔ حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں میڈیا پر پابندی 2019 کے بعد سے تیز ہو گئی ہے جب مودی حکومت نے علاقے کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔