بھارت:مسلمانوں کی ثقافت کو مٹانے کے لئے افطار پارٹیاں بھی ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر
نئی دہلی یکم مئی (کے ایم ایس)بھارت میں مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو مٹانے کے لئے ہر وہ شے ہندو انتہاپسندوں کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے جس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی یا خیرسگالی کا اظہار ہوتا ہو۔
اس سے بڑھ کر تنگ نظری اورجارحیت کیا ہوسکتی ہے کہ افطارپارٹیوں کو بھی امن وامان کے لیے خطرہ قرار دے کرختم کرنے کی کوششیں عروج پرہیں۔ گزشتہ جمعرات کودہلی یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی میں منعقد ہونے والی افطارپارٹی کا اجازت نامہ پولیس نے یہ کہہ کر منسوخ کردیا کہ اس سے کیمپس کے امن وامان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اسی دوران بنارس ہندویونیورسٹی کے وائس چانسلر کی طرف سے اپنے مسلمان ملازمین کو دی گئی افطارپارٹی کے خلاف انتہاپسند طلباء تنظیم” اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ”نے محاذکھول دیا اور وائس چانسلر کا پتلا نذرآتش کرکے انہیں آئندہ اس قسم کی حرکتوں سے باز رہنے کی وارننگ دی ۔یہ نئے بھارت کی تصویر ہے جس سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف دشمنی اور نفرت کی انتہاکا پتہ چلتا ہے۔رمضان کے مبارک مہینے کے دوران افطارپارٹیوں کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ جب بھی ماہ مبارک آتا ہے تو پور ی دنیا میں اس قسم کی افطارپارٹیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ سیاسی، غیرسیاسی، سماجی اور مذہبی طبقوں میں ان افطارپارٹیوں کا چلن ہے اور ان سے یکجہتی اور ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہوتا رہاہے لیکن مودی کے بھارت میں مسلمانوں کی ثقافت کو ہر سطح پر مٹانے کی کوشش جاری ہیں اور افطار پارٹیاں بھی ان سے محفوظ نہیں رہ سکیں۔