بھارت :اتراکھنڈ میں 3سال کے دوران درجہ فہرست ذاتوں اورقبائل کے خلاف جرائم میں35فیصد اضافہ
دہرادون20جولائی(کے ایم ایس)بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں گزشتہ تین سال کے دوران درج فہرست ذاتوں اوردرج فہرست قبائل کے خلاف جرائم میں 35فیصد اضافہ ہواہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی پولیس کے حالیہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست میں گزشتہ تین سال کے دوران درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے خلاف جرائم میں 35فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2019میں اس طرح کے تقریبا 100کیس درج کیے گئے جبکہ 2020 میں یہ تعداد 115اور 2021میں 135ہوگئی۔ 2021میں ہریدوار میں ان برادریوں کے خلاف جرائم کے سب سے زیادہ (39)کیس درج ہوئے تھے۔اس کے بعد ادھم سنگھ نگر اور نینیتال کا نمبر آتا ہے جہاں 30 تیس کیس درج ہوئے تھے ۔ دہرادون میں پچھلے سال اس طرح کے 14 واقعات دیکھنے میں آئے۔ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ چمپاوت کے ایک سرکاری اسکول میںضلع مجسٹریٹ اور دیگر اعلی حکام کی موجودگی میں دلت باورچی کی طرف سے تیار کردہ دن کا کھانا کھانے سے اونچی ذات کے طلبا ء کا انکار امتیازی سلوک کو ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح اتراکھنڈ کے پہاڑی علاقوں میں ذات پات کی ذہنیت مضبوط ہو رہی اور بڑھ رہی ہے۔ اسکے علاوہ چمپاوت میں ذات پات سے متعلق ایک اور واقعہ پیش آیا جس میں ایک 45 سالہ دلت شخص کو شادی کی تقریب میں اس جگہ پر کھانا کھانے پرپیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا جہاں کچھ اعلی ذات کے گائوں والے کھانا کھا رہے تھے۔ ماہرسماجیات جے پی بھٹ نے اس رجحان کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہاکہ دلت باورچی کیس اور درج فہرست ذاتوں اوردرج فہرست قبائل کے خلاف جرائم میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست میں خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں ذات پات کا نظام اب بھی موجود ہے۔انہوں نے کہا اگرچہ لوگ اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسکول کے بچے بھی اس میں ملوث ہیں اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ سماجی برائی بہت زیادہ ہے۔ سماجی کارکن انوپ نوٹیال نے کہا اگر لوگ اب بھی ذات پات میں ملوث ہیں تو سماج کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں۔