کشمیری عوام 10لاکھ سے زائد فوجیوں کی موجودگی سے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال میں زندگی گزارنے پر مجبور
سرینگر20جولائی(کے ایم ایس) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیرمیں سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے علاقے میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے سرینگر میں اپنے بیانات اور انٹرویوز میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ علاقے کے عوام 10لاکھ سے زائد بھارتی فوجیوں کی طرف سے پیدا کردہ سنگین صورتحال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے مقبوضہ جموں وکشمیرگزشتہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بھارت کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔انہوں نے کہاکہ 05اگست 2019کو نریندر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے کہا کہ مودی حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں گزشتہ 3 سال کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ نریندر مودی نے کشمیر کو ایک بڑی کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے اور یہاں کے باشندوں کے بنیادی انسانی حقوق سلب کرلئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کشمیر میں عام آدمی کوروزانہ محاصرے اورتلاشی کی کارروائیوں اور ظلم و تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارتی حکام بے گناہ شہریوں کو اندھا دھند طریقے سے گرفتار کر رہے ہیں، ان کے خلاف کالے قوانین نافذ کر رہے ہیں اور نجی املاک پر قبضہ کر رہے ہیں۔تاہم سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی اور اس کے حواریوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیریوں کے خلاف ان کے ظالمانہ ہتھکنڈے ناکام ہونے والے ہیں کیونکہ کشمیری بھارتی قبضے سے آزادی کے لیے ہر قیمت پر اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔ماہرین نے کہا کہ دنیا کو مقبوضہ جموں وکشمیرمیں محصور لوگوں کو بچانے کے لیے آگے آنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ کو طویل عرصے سے حل طلب تنازعہ کشمیر کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے جو جنوبی ایشیا میں مسلسل تنائو اور عدم استحکام کا باعث ہے۔