سرینگر میں آٹھویں محرم پرکرفیو جیسی سخت پابندیاں عائد
مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بنیادی آزادیاں پامال کی جارہی ہیں
سرینگر07اگست(کے ایم ایس) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں قابض حکام نے8اور 10محرم الحرام کے روایتی جلوسوں کو روکنے کے لیے سرینگر اور ملحقہ علاقوں میں کرفیو جیسی سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سرینگر کے علاقوں رام منشی باغ، کوٹھی باغ، مائسمہ، کرالہ کھڈ، شہید گنج، شیر گڑھی، بٹہ مالو،خانیار اور کرن نگر میں خاص طور پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ حکام نے وادی کشمیر میں موبائل انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کر دی ہیں۔پولیس نے میڈیا کو جاری کئے گئے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ حکام نے سرینگر کے علاقے گرو بازار سے ڈلگیٹ تک محرم الحرام کے جلوس پر پابندی عائدکر دی ہے۔
سرینگر میںمتعدد عزاداروں کو اس وقت گرفتارکیاگیا جب انہوں نے محرم کے جلوسوں پر پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جلوس نکالنے کی کوشش کی۔ سرینگرکے علاقوں جہانگیر چوک اور بٹہ مالو میں عزادار چھوٹے گروپوں میں جمع ہوئے لیکن پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا۔
حقیقت یہ ہے کہ سرینگر میں1989کے بعد سے محرم الحرام خاص طور پر 8اور 10محرم کے جلوسوں کو روایتی راستوں پر نکالنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔ قابض حکام کو خدشہ ہے کہ کہیں ماتمی جلوس بڑے آزادی نواز جلسوں کی شکل اختیارنہ کریں۔ تب سے کچھ علاقوں میں صرف چھوٹے جلوسوں کی اجازت ہے۔
دریں اثناء سول سوسائٹی فورم کے چیئرمین عبدالقیوم وانی نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں تاریخی جامع مسجد سرینگر کو کھولنے اور میر واعظ عمر فاروق کو غیر قانونی نظربندی سے رہا کرنے کا مطالبہ کیاہے۔
ضلع اسلام آباد کے علاقے سرسونہ میں ریلوے ٹریک سے آج پراسرار حالت میں ایک شخص کی لاش برآمد کی گئی۔ لاش کی شناخت مشتاق احمد ڈار کے نام سے ہوئی جو اوڈرا اسلام آباد کا رہائشی ہے۔
واشنگٹن میں قائم بھارتی تارکین وطن کی تنظیم انڈین امریکن مسلم کونسل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تین سال قبل جب سے بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت نے دفعہ 370کو منسوخ کیاہے، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، طویل نظربندیوں، تشدد، انٹرنیٹ اورنقل وحرکت کی آزادیوں پر پابندیوںاور80لاکھ کشمیری مسلمانوں پر دیگر مظالم میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔اس سے قبل نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے بھی ایک بیان میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ 5اگست 2019کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھارتی حکام کی جابرانہ پالیسیوں
اور فورسز کے مظالم کی تحقیقات اور ٹرائل میں ناکامی کے باعث کشمیریوں کے احساس عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔