بھارت

بھارت اگنی پتھ سکیم کے تحت بھرتی کیے گئے گورکھوں کے ذریعے نیپالی سیاست کو کنٹرول کرنے کا خواہاں

کھٹمنڈو08 ستمبر (کے ایم ایس) بھارت میں مودی حکومت کی شروع کردہ فوجیوں کی بھرتی کی نئی متنازعہ اگنی پتھ سکیم کے تحت بھارتی فوج میں نیپالی گورکھا بھرتیوں پر نیپال میں سنگین نوعیت کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
نیپال حکومت اس بارے میں تذبذب میں ہے کہ آیا بھارتی فوج کو اگنی پتھ اسکیم کے تحت نیپالی نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی اجازت دی جائے ۔ مذکورہ سکیم پر بھارت میں بھی کافی تنقید ہوئی ہے۔ اگنی پتھ سکیم کا معاملہ پہلی بار نیپال کی پارلیمنٹ میں 26 جولائی کو سامنے آیا۔
نیپال کے وزیر خارجہ نارائن کھڈکا نے نیپال میں بھارتی سفیر نوین سریواستو کو پہلے ہی مطلع کیا ہے کہ اگنی پتھ اسکیم کے تحت گورکھوں کی بھرتی سہ فریقی معاہدے کی دفعات کے مطابق نہیں ہے جس پر نیپال، بھارت اور برطانیہ نے 9 نومبر 1947 کو دستخط کیے تھے۔ سہ فریقی معاہدہ نیپالی فوجیوں کو بھارتی فوج میں خدمات انجام دینے کی اجازت دیتا ہے جبکہ انہیں بھارتیوں کے برابر مالی تحفظ اور فوائد کا یقین دلایا جاتا ہے۔
کھڑکا نے کہا کہ نیپال میں اپنے فوجیوں کو بغیر پنشن کے واپس لوٹنے کے بارے میں بڑے پیمانے پر تشویش پائی جاتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی حکومت نے اگنی پتھ اسکیم کے بارے میں نیپال سے کوئی مشورہ نہیں کیا ہے ۔
کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (ماو¿سٹ سینٹر) کے فارن ریلیشن ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ہیڈ رام کارکی نے کہا کہ اگنی پتھ اسکیم بھارت میں بھی متنازعہ ہو چکی ہے اور بی جے پی پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ بھارتی فوج کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔
رام کارکی کا مزید کہنا ہے کہ قبل ازیں نیپالی 18-20 سال بھارتی فوج میں خدمات انجام دیتے تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ملتی تھی۔ اب لوگ چار سال بھارتی فوج میں خدمات انجام دینے کے بعد واپس آئیں گے، واپس آنے کے بعد وہ کیا کریں گے یہ سوال طلب ہے لہذا ہمیں اس مسئلے پر بھارتی حکومت سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔
دفاعی تجزیہ کار اگنی پتھ اسکیم کے نیپال پر پڑنے والے سماجی اثرات سے بھی پریشان ہیں۔ نیپال میں کچھ تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ بھارت ان تربیت یافتہ نوجوانوں کو استعمال کرکے مختلف چینلز اور گیٹ ویز کے ذریعے نیپال میں فوجی بغاوت کروانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ ٹریننگ کے نام پر ایسی مختلف دفعات ہیں جن کے ذریعے بھارتی فوج نیپال میں داخل ہو سکتی ہے اور یہ کھٹمنڈو کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button