بھارتپاکستان

تقسیم ہند کے وقت بچھڑنے والے بھائی کی کرتارپور میں اپنی بہن سے ملاقات

اسلام آباد10ستمبر(کے ایم ایس)بھارتی پنجاب کے شہرجالندھر میں مقیم امرجیت سنگھ کی اس وقت خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جب وہ تقسیم ہند کے وقت اپنے خاندان سے جدھا ہونے کے 75سال بعد کرتار پور کے گوردوارہ دربار صاحب میں پاکستان میںاپنی مسلمان بہن سے ملے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق امرجیت سنگھ اپنی بہن کے ساتھ بھارت میں رہ گئے تھے جب تقسیم کے وقت ان کے مسلمان والدین پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔کرتارپور کے گوردوارہ دربار صاحب میں وہیل چیئر پر بیٹھے امرجیت سنگھ کی اپنی بہن کلثوم اختر سے جذباتی ملاقات کے وقت سب کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ امرجیت سنگھ اپنی بہن سے ملنے کے لیے اٹاری واہگہ بارڈر کے ذریعے ویزا لے کر پاکستان پہنچے تھے۔65سالہ کلثوم امرجیت سنگھ کو دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں۔ دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے رہے۔ وہ اپنے بیٹے شہزاد احمد اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ اپنے آبائی شہرفیصل آباد سے اپنے بھائی سے ملنے آئی تھیں۔ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کلثوم نے کہا کہ ان کے والدین 1947 میں جالندھر کے ایک مضافاتی علاقے سے اپنے پیچھے ایک بھائی اور ایک بہن کو چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔ کلثوم نے کہا کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئیں اور اپنی والدہ سے اپنے کھوئے ہوئے بھائی اور بہن کے بارے میں سنتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی ان کی والدہ اپنے گمشدہ بچوں کو یاد کرتی تھیں تو رو پڑتی تھیں۔انہوں نے کہا کہ انہیں امید نہیں تھی کہ وہ کبھی اپنے بھائی اور بہن سے مل سکیں گی۔ تاہم چند سال قبل ان کے والدکے ایک دوست سردار دارا سنگھ بھارت سے پاکستان آئے اور ان سے ملاقات کی۔ ان کی والدہ نے سردار دارا سنگھ کو اپنے بیٹے اور بیٹی کے بارے میں بتایا جو بھارت میں رہ گئے تھے۔انہوں نے انہیں اپنے گائوں کا نام اور ان کے گھر کا مقام بھی بتایا۔اس کے بعد سردار دارا سنگھ پڈاون گائوں میں ان کے گھر گئے اور انہیں بتایا کہ ان کا بیٹا زندہ ہے لیکن ان کی بیٹی فوت چکی ہے۔ ان کے بیٹے کا نام امرجیت سنگھ ہے جسے 1947میں ایک سکھ خاندان نے گود لیا تھا۔ بھائی کی اطلاع ملنے کے بعد کلثوم نے امرجیت سنگھ سے واٹس ایپ پر رابطہ کیا اور بعد میں ملنے کا فیصلہ کیا۔ کلثوم نے کمر میں شدید درد کے باوجود اپنے بھائی سے ملنے کے لیے کرتارپور جانے کا فیصلہ کیا۔امرجیت سنگھ نے کہا کہ جب انہیں پہلی بار معلوم ہوا کہ ان کے حقیقی والدین پاکستان میں ہیں اور مسلمان ہیں تو یہ ان کے لیے حیران کن تھا۔ تاہم انہوں نے اپنے دل کو تسلی دی کہ ان کے اپنے خاندان کے علاوہ کئی خاندان ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ اپنی حقیقی بہن اور بھائیوں سے ملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ان کے تین بھائی زندہ ہیں۔ تاہم ایک بھائی جو جرمنی میں تھافوت ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے پاکستان آئیں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنے خاندان کو بھارت بھی لے جانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے سکھ خاندان سے مل سکیں۔ دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کے لیے بہت سے تحائف لائے تھے۔ کلثوم کے بیٹے شہزاد احمد نے کہا کہ وہ اپنی نانی اور والدہ سے اپنے چچا کے بارے میں سنتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تقسیم ہند کے وقت تمام بہن بھائی بہت چھوٹے تھے۔میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ میرے چچا کی پرورش ایک سکھ خاندان نے کی ہے، اس لیے وہ سکھ ہیں اور مجھے اور میرے خاندان کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ایکسپریس ٹریبیون نے ان کے حوالے سے بتایا کہ شہزاد نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ 75سال بعد بھی ان کی والدہ کو اپنا کھویا ہوا بھائی مل گیا ہے۔یہ دوسرا موقع ہے جب کرتار پور راہداری نے بچھڑے ہوئے خاندانوں کو دوبارہ ملادیا۔ مئی میں ایک سکھ خاندان میں پیدا ہونے والی ایک خاتون جسے ایک مسلمان جوڑے نے گود لیا تھا اور اس کی پرورش کی تھی، کرتار پور میں بھارت سے آئے اپنے بھائیوں سے ملاقات کی۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button