امریکی سینٹ میں1984کے سکھ قتل عام کی گونج،سینیٹر پیٹ ٹومی کا مجرموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
واشنگٹن 03اکتوبر (کے ایم ایس)ایک امریکی سینیٹر نے بھارت میں1984کے سکھ کش فسادات کوجدید بھارتی تاریخ کے سیاہ ترین بابوں میں سے ایک قراردیتے ہوئے بھارت میں سکھوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو یاد رکھنے کی ضرورت پر زورد یا تاکہ اس قتل عام کے قصورواروں کو سزا دی جا سکے۔
31اکتوبر 1984کو سابق بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی ان کے سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد دہلی اور بھارت کے دیگر علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے۔ بھارت بھر میں 3000سے زائد سکھوں کا قتل عام ہوا جن میں زیادہ تر کو دہلی میں قتل کیاگیا۔سینیٹر پیٹ ٹومی نے سینیٹ کے فلور پر اپنی تقریر میں کہاکہ دنیا نے دیکھا کہ بھارت میں نسلی گروپوںکے درمیان کئی پرتشدد واقعات رونما ہوئے جن میں سے کئی میں خاص طور پر سکھ برادری کو نشانہ بنایا گیا۔انہوں نے کہاکہ آج ہم یہاں اس سانحے کو یاد کرنے کے لیے آئے ہیں جوپنجاب صوبے میں سکھوں اور بھارت کی مرکزی حکومت کے درمیان دہائیوں کے نسلی تنائو کے بعد یکم نومبر 1984کو شروع ہوا۔سینیٹر نے کہا کہ اس طرح کے اکثر معاملات میں سرکاری تخمینہ پوری کہانی نہیں بتاتا، لیکن یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ بھارت بھر میں 30,000سے زیادہ سکھ مردوں، عورتوں اور بچوں کو جان بوجھ کرہجوم کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، ان کی عصمت دری کی گئی، انہیںقتل اور بے گھر کیا گیا۔ پنسلوانیا سے منتخب ہونے والے سینیٹر نے کہاکہ مستقبل میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے، ہمیں ان کی ماضی کی شکلوں کو پہچاننا ہوگا۔ ہمیں سکھوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو یاد رکھنا چاہیے تاکہ ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکے اور یہ کہ اس قسم کا سانحہ سکھ برادری یا دنیا بھر میں دیگر کمیونٹیز کے خلاف نہ دہرایا جائے۔سینیٹر ٹومی نے جو امریکن سکھ کانگریشنل کاوکس کے رکن ہیں، کہا کہ سکھ مذہب کی تقریبا 600سالہ تاریخ کا سراغ بھارتی پنجاب کے علاقے ملتا ہے۔ دنیا بھر میں اس مذہب کے تقریبا تین کروڑ اور یہاں امریکہ میں7لاکھ پیروکار ہیں۔انہوں نے کہاکہ سکھ مذہب دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک ہے۔