شہیدمقبول بٹ اور ان کی جدوجہد
شہباز لون
مقبوضہ جموں وکشمیر پربھارت کے غاصبانہ ،ناجائز،غیر قانونی اور غیر اخلاقی قبضے کے خاتمے کیلئے جدوجہد آزادی میں 1947 سے بالعموم اور 1989 سے بالخصوص جہا ں لاکھوں کشمیری اب تک اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں ،وہیں ان قربانیوں نے مسئلہ کشمیر کو سرد خانے سے نکال کر ایک عالمی مسئلہ بنادیا ہے۔اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں میں ترہیگام کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے سرخیل اور مسلح جدجہد کے بانی جناب محمد مقبول بٹ بھی شامل ہیں ،جنہیں 1984 میںآج ہی کے دن بھارتی حکمرانوں نے بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں تختہ دار پر چڑھا کر جیل کے احاطے میں ہی دفن کرکے اپنے لئے رسوائی اور ذلت کا سامان کیا ہے۔محمد مقبول بٹ تختہ دار پر چڑھ کر مرے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔وہ بھارتی حکمرانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے موت کو گلے لگاکر اس شعر کے عملی مصداق ٹھرے
یہ امت احمد مرسل ہے اک شوق شہادت کی وارث
اس گھر نے ہمیشہ مردوں کو سولی کیلئے تیار کیا
جناب مقبول بٹ کی جلائی ہوئی شمع آزادی بھجی نہیں بلکہ پہلے کی طرح روشن ہے اور اہل کشمیر اس شمع کو اپنے خون سے جلارہے ہیں۔بھارتیوں نے ایک مقبول کو تختہ دار پر چڑھایا تو مقبوضہ جموں وکشمیر میں لاکھوں مقبول پیدا ہوئے،جنہوں نے اپنی جانیں تحریک آزادی پر نچھاور کی ہیں۔ایک سیل رواں ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا۔بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے جدوجہد آزادی اہل کشمیر کی تیسری نسل کو منتقل ہوچکی ہے۔
جناب مقبول بٹ ایک استعارہ ہیں،وہ شعور کی بیداری کے ساتھ جدوجہد آزادی میں شامل ہوئے اور پھر قافلے کے سالار بھی ٹھرے۔وہ رکے نہیں بلکہ آگے ہی بڑھتے رہے،نہ گرفتاریاں اور نہ ہی قید وبند کی صعوبتیں ان کے راستے میں حائل بنیں،ان میں ایک جنون تھا جو انہیں تہاڑ جیل کے تختہ دار تک لیکر گیا۔وہ اعلی تعلیم یافتہ تھے،انہوں نے ماسٹرز ڈگری حاصل کررکھی تھی،چاہتے تو اعلی عہدے پر فائز ہوسکتے تھے،مگر وہ کسی اور دنیا کا باسی تھا اور ہمیشہ کیلئے امر ہونا چاہتے تھے،جس کیلئے جان کی بازی لگانا شرط اول تھی۔سو انہوں نے دنیاوئی فوائد حاصل کرنے کے بجائے اپنا نام تاریخ میں لکھوانا مناسب اور ضروری سمجھا۔ان کے راستے میں مشکلات و مصائب کے پہاڑ بھی آئے مگر وہ فولادی عزم و حوصلے کے ثابت ہوئے۔کوئی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی رکاوٹ ان کے راستے میںحائل نہیں بنی۔انہوں نے جیسے چاہا ویسے ہی کردکھایا۔انہیں برطانیہ میںبھارتی سفارت کار رویندر مہاترے کے قتل میں ملوث ٹھرایا گیا،جس میں ان کا نہ کوئی کردار تھا اور نہ ہی کوئی لینا دینا،بس بھارتی حکمران جناب مقبول بٹ کو تختہ دار پر چڑھا کر انتقام کی آگ بھجانا چاہتے تھے سو انہوں نے انتقام میں اندھے ہوکر جناب مقبول بٹ کو 11فروری 1984 میں علی الصبح پھانسی دیکر اہل کشمیر کو ڈرانے اور خوف زدہ کرنے کی ناکام اور بھونڈی کوشش کی۔جناب مقبول بٹ کو معافی مانگنے کی بھی پیشکش کی گئی تھی جس سے انہوں نے پائے حقارت سے ٹھکرایا۔انہوں نے پھانسی کے پھندے کو چومنا قبول کیا لیکن بھارتی حکمرانوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے صاف انکار کرکے بھارت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا پر یہ واضح کردیا کہ اعلی اور بلند نصب العین کیلئے جان کی بازی لگانا گھاٹے کا سودا نہیں ،انہوں نے رہتی دنیا تک مظلوم اور محکوم اقوام کو یہ سبق دیا ہے کہ اصولوں اور نصب العین کو جان بخشی کے بدلے قربان نہیں کیا جاسکتا۔جناب مقبول بٹ نے جان قربان کرکے اہل کشمیر کو سر اٹھاکے جینے کا گر سکھایا ہے۔ان کی یاد میں اہل کشمیر پورے مقبوضہ جموں وکشمیر میں مکمل ہڑتال کرکے سرزمین کشمیر کے اس بہادر سپوت کو عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔جبکہ ان کے آبائی علاقہ ترہگام کپواڑہ میں ان کی برسی کے موقع پر ایک الگ اور عجیب منظر دیکھنے کو ملتا ہے،ان کے گھر میں ہفتوں پہلے ان کی برسی منانے کی تیاری کی جاتی ہے،گھر کو باضابط طور پر سجایا جاتا ہے۔ان کی بزرگ والدہ شاہ مالی بیگم جو بلاشبہ کشمیری عوام کی ماں کادرجہ رکھتی ہیں اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر کا اظہار کرتی ہیں،وہ بارہا یہ الفاظ دہرا چکی ہیں کہ انہیں اپنے بیٹے کی شہادت پر کوئی ملال نہیں،اگر ان کے دس بیٹے اور ہوتے تو وہ انہیں بھی مقبول کا راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتیں،کیا ایسی ماوں کی موجودگی میں بھارت اہل کشمیر کو عظیم اور لازوا ل قربانیوں سے مزیں تحریک آزادی سے دستبردار کراسکتا ہے۔اہل کشمیر میں جب تک مقبول بٹ جیسے بیٹے جنتے رہیں گے،دنیا کی کوئی طاقت انہیں حق خود ارادیت کی تحریک سے باز نہیں نہیں رکھ سکتی۔جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے زیر انتظام فلاحی عام ٹرسٹ میں بطور استاد اپنے فرائض سر انجام دینے والے جناب مقبول بٹ آج بھی بھارتی حکمرانوں کے اعصاب پر بری طرح سوار ہیں۔
کل جماعتی حریت کانفرنس نے شہید محمد مقبول بٹ کو ان کی یوم شہادت پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آج مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال اور سول کرفیو نافذ کرنے کی اپیل کی ہے۔حریت کانفرنس نے اپنے بیان میں کہا کہ شہید رہنمانے بھارت کے غیر قانونی فوجی قبضے سے آزادی کے مقدس مقصد کے حصول کیلئے اپنی قیمتی جان نچھاور کی اور اہل کشمیرناقابل تنسیخ حق، حق خود ارادیت کی جدوجہد میں ان کی قربانی کے مقروض ہیں۔ انصاف اور انسانیت کے عالمی معیار کے برعکس بھارتی سپریم کورٹ کے غیر منصفانہ اور متعصبانہ طرز عمل انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے اور یہ کہ آزادی پسند رہنما کو ایک ایسے جرم کی پاداش میں بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی جو انہوں نے کبھی کیاہی نہیں تھا۔ مقبول بٹ کو پھانسی آزادی پسندکشمیری عوام کو خوفزدہ کرنے کے لیے دی گئی۔ البتہ انہوں نے بڑی بہادری سے پھانسی کے پھندے کو چوم کرشہادت اور ابدی سکون حاصل کرلیا۔ چاہے کچھ بھی ہو ،اہل کشمیرشہداکے مشن کو جاری رکھیں گے اور بھارت کے فوجی طاقت کے سامنے کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ تحریک آزادی کشمیر بھارت کے ناجائز تسلط کے خلاف ایک عوامی بغاوت ہے اور حق خودارادیت کا جائز مطالبہ مکمل طور پر اہل کشمیر کا اپنامطالبہ ہے۔ غاصب بھارت کے خلاف برسر پیکار حزب المجاہدین کے سپریمو سید صلاح الدین احمد نے محمد مقبول بٹ کو عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے کہا ہے کہ 11 فروری 1984 بھارتی عدلیہ کاسیاہ ترین دن ہے جب محض جھوٹے اور من گھڑت الزامات کے تحت سرزمین کشمیر کے عظیم سپوت کو تہاڑ جیل میں تختہ دار پر چڑھا کر پھر جیل کی چار دیواری کے اندر ہی انہیں دفنایا گیا۔ یہ پھانسی نام نہاد بھارتی جمہوریت اور سکیولرازم کے دامن پر ایک ایسا سیاہ دھبہ ہے جس سے کسی صورت دھویا نہیں جاسکتا ۔اہل کشمیر کے اس سپوت کا مشن جاری ہے اور آزادی کی صبح تک جاری رہے گا۔بھارتی حکمرانوں نے جناب مقبول بٹ کے جسد خاکی کو تہاڑ جیل کے احاطے میں دفن کرکے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔وہ سمجھتے تھے کہ ان اقدامات سے اہل کشمیر کو تحریک آزدای کشمیر سے الگ تھلگ کیا جائے گا،مگر بھارتی حکمرانوں کے اندازے ہمیشہ کی طرح غلط ثابت ہوئے،اہل کشمیر نے جہاں اپنی جدوجہد کو ماند نہیں پڑنے دیا وہیں ایسے سرخیل اس تحریک پر قربان کئے کہ جن پر اپنے تو اپنے پرائے بھی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکے۔برہان وانی جیسے جری سپوت جہاں 9 لاکھ بھارتی درندوں کو کئی برسوں تک نچاتے رہے وہیں ان کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر کو بام عروج بخشا ہے۔ورنہ بھارتی حکمران کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کے خاتمے کا اعلان بھی کرتے نہیں تھکتے،ان کی شہادت تحریک آزادی کشمیر کیلئے تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوئی،6لاکھ کشمیری ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے،جس کی گونج بھارتی پارلیمنٹ بھی سنائی دی گئی کہ ایک کشمیری بچے کی نماز جنازہ میں 6 لاکھ کشمیری شریک ہوئے،جو بھارت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اہل کشمیر نہ پہلے تھکے تھے،نہ آج تھکے ہیں اور نہ ہی وہ تھکنے کا نام لے رہے ہیں۔اتنی عظیم اور بے مثال قربانیوں کے ساتھ اہل کشمیر نے پہلے بھی کھلواڑ نہیں کیا اور نہ ہی آج کرسکتے ہیں۔اہل کشمیر ان قربانیوں کے امین ہیں،جو حق خود ارادیت کیلئے دی جارہی ہیں۔