مضامین

کشمیر میں تعمیرات کی مسماری اور زمینوں سے بے دخلی کی وحشیانہ مہم

مودی سرکار کا ایک اور جنگی جرم کا ارتکاب
arshad mir column

ارشد میر

نریندر مودی کی زیر قیادت فسطائی بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو زیر،ان پر ہندوتوا کا شیطانی ایجنڈا نافذ کرنے کیلئے صیہونی طرز پر ایک وحشیانہ مہم شروع کرکھی ہے جس کے تحت کشمیریوں کے گھروں کو مسمار،جائیدادوں کو قرق اور زمین و جائیدادوں سے بے دخل کیا جارہا ہے۔ اس انسانیت کش مہم کے دوران ہزاروں،رہائشی مکانوں،دکانوں اور دیگر تعمیرات کو مسمار کردیا گیا ہے۔ بھارتی بلڈوزر جس بے دردی اور سفاکیت کے ساتھ بدمست ہاتھی کی طرح  تجاوزات ہٹانے کی نام نہاد مہم کے نام پر غریبوں کے آشیانے تاراج کررہے ہیں اس سے ہندوتوا عناصر کے پاگل پن،نفرت اور کشمیر دشمنی کی عکاسی ہوتی ہے۔

اس وحشیانہ مہم کے خلاف آج مکمل ہڑتال کی جارہی ہے۔ہڑتال کی کال کل جماعتی حریت کانفرنس نے دی ہے۔ حریت کانفرنس کے ترجمان نے سرینگر میں جاری ایک بیان  میں کہا کہ زمینوں پر قبضے کی مودی حکومت کی پالیسی کا مقصد کشمیریوں کی شناخت اور ان کے مسلم کردار کو مٹاناہے ۔انہوں نے کہاکہ بھارت کے 5اگست 2019کے غیر قانونی اقدامات کا مقصد غریب کشمیریوں سے چھینی گئی زمینوں پر غیر کشمیری ہندؤں کو آباد کرنے کے ذریعے اس خطے میں اسلام کی آمد سے قبل نام نہاد ہندو تہذیب کوبحال کرنا ہے۔

غیر قانونی طور پر نظر بند کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ اور سینئر رہنماء شبیر احمد شاہ نے نئی دہلی کی تہاڑ جیل سے اپنے  پیغامات میں کشمیریوں سے ہڑتال کی کال کو کامیاب بنانے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت کو مقبوضہ علاقے میں مظلوم کشمیریوں کی منظم نسل کشی روکنے پر مجبور کرے۔ انھوں نے نسل پرست مودی حکومت کے مذموم عزائم ناکام بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ کشمیری اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر مقبوضہ علاقے میں غیر کشمیریوں کو آباد کرنے کے مودی حکومت کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کیلئے متحد ہو جائیں۔

بے دخلی مہم کے خلاف مظفرآباد میں بھی پاسبانِ حریت جموں و کشمیر کے زیر اہتمام سنٹرل پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا جارہا ہے ۔ احتجاجی پروگرام میں لوگوں کو بھرپور انداز میں شرکت کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیرمیں انسداد تجاوزات کے نام پر کشمیریوں سے انکی زمینیں چھین رہی ہے اورگھروں کو مسمار کررہی ہے ۔ نریندرمودی کشمیری عوام کیخلاف بلڈوزر کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عام شہریوں کے گھر، ان کی جائیدادیں اور دیگر تعمیرات مسمار کر رہا ہے۔ کشمیریوں کو زبردستی ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں بھارتی سامراج کو روکنے کیلئے آزاد کشمیر کی حکومت، سیاسی پارٹیوں، مذہبی جماعتوں، سول سوسائٹی، عوام اور بالخصوص نوجوانوں کا کردار بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ ہم سب کا مل کر اپنی ریاست کی وحدت، مسلم شناخت اور وطن کی مٹی کا دفاع کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔

لیگل فورم فار کشمیر نے حال ہی میں ایک رپورٹ زیر عنوان ہے”زمینوں پر بڑے پیمانے پر قبضہ :مقبوضہ جموں و کشمیر میں لوگوں کو بے اختیاربنانا” جاری کی ہے جس میں اس مہم کو اسرائیلی طرز کے نوآبادیاتی ماڈل سے تعبیر کرتے ہوئے کہا گیاکہ اس کا مقصد کشمیریوں کو ان کی زرعی اور غیر زرعی زمینوں سے بے دخل کرنا ہے تاکہ ان کو معاشی طورپر بے اختیار بنایاجائے۔ رپورٹ میں تحصیل اوردیہات کے حساب سے قبضے میں لی گئی زمینوں کی تفصیل فراہم کی گئی ہے اور نشاندہی کی گئی ہے کہ بھارتی حکام نے دوران وادی کشمیر میں 1لاکھ 78ہزارایکڑ سے زائد اور جموں میں 25ہزار159ایکڑ سے زائد اراضی کوئی نوٹس دیے بغیر مالکان سے زبردستی چھین لی ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99کے تحت سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کو تمام سفارتی اور دیگر پرامن ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر کے لوگوں کو جبری بے دخلی، نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم سے بچانے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔

بے دخلی کی مہم مقبوضہ جموں و کشمیر کے 20اضلاع میں تیزی سے جاری ہے جہاں محکمہ مال کے حکام، پولیس اور بلڈوزر کشمیریوں کے گھر اور دیگر عمارتیں منہدم کر کے انہیں بے یارومددگار بنا رہے ہیں۔ انسداد تجاوزات کی مہم دراصل مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا عمل ہے تاکہ غیر کشمیری ہندوؤں کو ووٹ اور شہریت سمیت دیگر حقوق دیکر مقبوضہ علاقے میں آباد کیاجاسکے۔ مسمار اور ضبط کی گئی جائیدادوں میں سیاسی قائدین، سماجی شخصیات، صحافیوں اور انسانی کارکنوں  کے کارکنوں کے گھر بھی شامل ہیں جن کو ڈرا دھمکا کر بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے  کی سزا دی جارہی ہے۔

مودی کی فسطائی بھارتی حکومت نے ضلع راجوری میں غریب کشمیریوں سے 2لاکھ 86ہزار8سو 75 کنال اور 14 مرلہ اراضی ضبط کرنے کا اعتراف کیا ہے ۔قابض بھارتی انتظامیہ نے انسداد تجاوزات کے نام پر شروع کی گئی نام نہاد مہم کے دوران راجوری ضلع کی تمام تحصیلوں میں اب تک2لاکھ 86ہزار8سو 75 کنال اور 14 مرلہ اراضی پر قبضہ کیا ہے۔پولیس اور ریونیو افسروں ،اہلکاروں کی ٹیمیں راجوری، درہال، قلعہ درہال، تھنہ منڈی، نوشہرہ،  سندر بنی، سیوٹ، کالاکوٹ، تریٹھ، بیری پٹن، منجاکوٹ، مولا اور خواس میں نام نہاد مہم چلا رہی ہیں۔

 

مودی حکومت بھارتی ہندؤں کو بسانے کیلئے کشمیریوں کی203,264 ایکڑ سے زائد اراضی ہتھیانے کی کوشش کرر ہی ہے ۔ بی جے پی حکومت نے اپنے اس مذموم منصوبے کی تکمیل کیلئے متعدد قوانین میں ترمیم کی ہے جنکے ذریعے مقبوضہ علاقے میں مقامی آبادی کی اراضی اور دیگر حقوق کو تحفظ حاصل تھا۔

مودی سرکار کی ہدایات پر محکمہ ریونیو کی طرف سے گزشتہ ماہ جاری کے گئے ایک حکمنامے میں تمام ضلع کلکٹروں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ سرکاری اراضی، لیز پر دی گئی زمین، عام استعمال کی زمین اور چراگاہوں کی زمین بھی حاصل کریں۔مگر عملی طور پر دیکھا جارہا ہے کہ”سرکاری اراضی، لیز پر دی گئی زمین، عام استعمال کی زمین اور چراگاہوں کی زمین” کی اس لفاظیت کی آڑ میں کشمیری مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بھارتی ٹیلی ویژن چینل این ڈی ٹی وی نے اپنی ایک رپورٹ میں اس کی تصدیق بھی کی کہ اگرچہ نام نہاد لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کی انتظامیہ کہتی ہے کہ یہ مہم غیر قانونی تجاوزات اور سرکاری زمینوں پر قبضے کے خلاف ہے مگر حقیقت اسکے برعکس ہے۔ اسکی آڑ میں ایک مخصوص فرقہ (مسلمانوں) کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ  جموں میں جس رہائشی اسکیم کو غیر قانونی قرار دیکر وہاں موجود مکانات کو منہدم کیا جارہا ہے وہاں بی جے پی اور سنگ پریوار کے دیگر لیڈروں اور کارکنوں کے بھی مکانات ہیں مگر انھیں نشانہ نہیں بنایا جارہا ہے۔

محکمہ ریونیو نےاس ضمن میں 11737 صفحات پر مشتمل فہرست  میں جس نام نہاد” ریاستی اراضی” کی نشاندہی  کی ہے وہ  بگ لینڈاسٹیٹ ایبولیشن ایکٹ(زرعی اصلاحات ایکٹ)، جے کے اسٹیٹ لینڈ ویسٹنگ آف اونر شپ ایکٹ 2001،JK Evacuees (Administration) of Property Act, Jammu and Kashmir Tenancy Act 1980, Jammu and Kashmir Common Lands(Regulation) Act, 1956 اور سابقہ ریاستی حکومتوں کی طرف سے بے زمین کسانوں کے حق میں منظور کیے گئے دیگر متعدد قوانین کے تحت کشمیریوں کی ملکیت ہے۔گویا بہ الفاظ دیگر اس مہم کو جو  مصنوعی قانونی جوازیت عطا کی گئی ہے وہ از خود مقامی قوانین کی رو سے بھی غیر قانونی ہے۔

اور اگر بین الاقوامی قوانین  کے زاویہ سے دیکھا جائے تو  لوگوں کو زمینوں سے بلاجواز طورپر محروم کرنا اور انکی املاک کی مسماری  انکی رو سے مطابق جنگی جرم ہے کیونکہ اس سے عالمی سطح پر تسلیم شدہ مختلف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ‘اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی قراردادیں 1993/77 اور 2004/28 اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ جبری بے دخلی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس مہم کو انسانی حقوق اور بین الاقوامی  قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے بھارتی حکومت کو ان قوانین و معاہدات کی پاسداری کرنے ،یہ مسماری مہم فوری طور پر روکنے اورع متاثرہ افراد کو معاوضہ د ینے کا مطالبہ کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا بورڈ کے سربراہ آکار پٹیل نے سرینگر، بڈگام، اسلام آباد اور بارہمولہ سمیت مقبوضہ علاقہ کے مختلف اضلاع میں 4 فروری سے جاری اس مسماری مہم پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ یہ مہم بھارت کے زیرانتظام واحد مسلم اکثریتی خطے جموں کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی ظالمانہ خلاف ورزیوں میں ایک اور اصافہ ہے۔انہوں نے کہاکہ مسماری مہم جبری بے دخلی کے مترادف ہے جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہاکہ اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے،جس کا بھارت ایک فریق ہے، کے تحت ہر ایک کو مناسب رہائش کا حق حاصل ہے اور جبری بے دخلی پر پابندی ہے۔  انہوں نے کہاکہ بھارتی حکام کو فوری طور پر مسماری مہم کو روکنا چاہیے اور جبری بے دخلی کے خلاف حفاظتی اقدامات کی یقینی بنانا چاہیے جس طرح بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات میں بیان کیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ بغیر کسی امتیاز کے تمام متاثرہ افراد کو مناسب معاوضہ دیاجانا چاہیے۔اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جبری بے دخلی کے متاثرین اس کا ازالہ کرسکیں اور ذمہ داروں کا احتساب  کیا  جائے۔

این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس امتیازی مہم نے ہزاروں خاندانوں کو متاثر کیا ہے جنہیں بے گھر ہونے اور روزی روٹی کے چیلنجوں کا سامنا ہے اورمقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر بلڈوزر کی کارروائی نے کئی مقامات پر احتجاجی مظاہروں کو جنم دیا ہے ۔

ہندوستان ٹائمز نے لکھا ہے کہ اس مہم نے کشمیر میں بھارتی اعتماد کو زمین بوس کردیا ہے۔ دی پرنٹ نے لکھا کہ اس مہم کی وجہ سے مقبوضہ علاقہ میں خوف  اور بے چینی نئی بلندیوں پر پہنچ رہی ہے جو یقینا کسی نہ کسی وقت بھارت کے خلاف ایک آتش فشاں کی طرح پھٹے گی۔

اس وحشیانہ مہم کے خلاف جموں اور وادی میں صرف گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ہی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگوں نے سرینگر،  بانڈی پورہ ،نروال جموں  اور بانہال سمیت  کئی مقامات پر  نصف درجن سے زائد بار  شدید احتجاجی مظاہرے کئے۔ بانیہال اور ناروال جموں،سرینگر کے علاقے پادشاہی باغ میں اب تک  ایک میڈیکل سٹور سمیت درجنوں گھروں اور دکانوں کو مسمار کیا گیا۔نروال میں احتجاج پر 9 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اب تک سیاسی رہنماؤں سمیت درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود احتجاجی مظاہروں کا نہ تھمنے کا سلسلہ وسیع پیمانے پر جاری ہے۔

فسطائی مودی حکومت کی اس ننگی جارحیت کے خلاف نہ صرف کشمیری عوام اور انکی حقیقی طور پر سیاسی نمائندگی کرنے والا خیمہ حریت مزاحم ہے بلکہ بھارتی خیمہ سے وابستہ جماعتیں اور قائدین بھی سیخ پا ہیں۔

نیشنل کانفرنس کے رہنمائوں نے سرینگر میں جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ پورے مقبوضہ علاقے میں بھارتی قابض انتظامیہ کی طرف سے کشمیریوں کی زمینوں پر جبری قبضے اور گھروں کومنہدم کرنے کی جاری مہم معاشرے کے ہر طبقے سے وابستہ لوگوں خاص طور پر معاشی اعتبار سے پسماندہ لوگوں کو بری طرح متاثر کررہی  ہے۔  انہوں نے کہاکہ گھروں، کاروباری اداروں اور دکانوں کو مسمار کرنے کا تشویشناک رجحان تمام مسلمہ اصولوں اور انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلڈوزرمہم سرکاری ایجنسیوں نے پیشہ ورانہ طور پرتجاوزات کو ہٹانے اور سرکاری زمینوں سے غیر قانونی قبضے کو چھڑانے کے لیے شروع کی تھی۔ تاہم حکام اس استدلال کومخصوص بستیوں کو نشانہ بنانے اور مسمار کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

اس پہلے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ پورے مقبوضہ علاقے میں کشمیریوں کی بے دخلی کی غیر قانونی مہم کی وجہ سے بڑے پیمانے پر خوف پایاہے۔سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کشمیر کے کونے کونے میں شروع کی گئی بے دخلی کی جبری مہم کی وجہ سے کشمیری شدید خوف ودہشت میں مبتلا ہیں۔انہوں نے کہاکہ لوگوں کو ڈرانے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گااور بلڈوزر سے کشمیریوں کے گھروں کو گرانا بند کریں ، یہ ہمارا پہلا مطالبہ ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ مقبوضہ علاقے میں اختلاف رائے رکھنے کو جرم قرار دے دیاگیا ہے ۔ عمر عبداللہ نے کہاکہ اب جبکہ میں کشمیریوں کے گھروں کو مسمار کرنے کی مہم کے خلاف کھل کر بات کر رہے ہیں تو قابض حکام نیشنل کانفرنس کے رہنمائوں کی مزید املاک مسمار کر دیں گے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے لوگوں کو مذہب، ذات پات، رنگ و نسل اور برادری کی بنیاد پر تقسیم کردیا ہے اور اب وہ انہیں معاشی بنیادوں پر بھی تقسیم کرنا چاہتی ہے۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مودی حکومت انسداد تجاوزات کی نام نہاد مہم کو کشمیری عوام کو دبانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے ۔محبوبہ مفتی نے6 فروری کو نئی دلی میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس مہم کا مقصدکشمیریوں سے انکی املاک چھیننا ہے اورمودی حکومت کے اس اقدام سے کشمیر کی صورتحال افغانستان سے بھی بدتر ہو گئی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انتخابات مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت دفعہ370اور ریاستی حیثیت کی بحالی جیسے اہ مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ محبوبہ مفتی نے مزید کہا کہ ہم مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل چاہتے ہیں۔

کانگریس پارٹی کی جموں وکشمیر شاخ نے بلکہ 7 فروری کو دارلحکومت نئی دلی کشمیریوں کی انکی زمینوں سے بے دخلی کی جبری مہم کے خلاف جنتر منتر میں زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بیرون ممالک مقیم کشمیری بھی اس ظالمانہ مہم کے خلاف سخت سراپا احتجاج ہے۔ مگر مودی حکومت کے وحشیانہ پن میں کوئی کمی نہیں آرہی۔

بھارت میں راشٹریہ جنتادل کے رکن پارلیمنٹ ایم کے جھا ہ نے بی جے پی حکومت پر زوردیا ہے کہ وہ کشمیر کومحض زمین کا ایک ٹکڑا نہ سمجھے کیونکہ وہاں زندہ لوگ بستے ہیں اور جب تک کشمیریوں کے دل نہیں جیتا جائیں گے، کشمیر کو جیتا نہیں جاسکتا۔انہوں نے بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں کئی مہینوں سے بلڈوزر چلایاجارہا ہے اورکہاجارہا ہے کہ سرکاری زمینوں کو خالی کرایا جارہا ہے لیکن وہاں بغیر کسی نوٹس کے لوگوں کے گھر مسمار کئے جارہے ہیں اور لوگوں کو بے گھر کیاجارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ دہلی کے دربار میں یہ کہنا کہ کشمیر میں حالات معمول پر ہیں اورسرینگر میں کھڑے ہوکر معمول کے حالات محسوس کرنے میں بہت فرق ہے ۔ انہوں نے کہاکہ نام بدلنے سے تاریخ نہیں بدلتی ۔ واضح رہے کہ بی جے پی کی ہندوتوا حکومت بار بار یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں اور بھارتی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیر اور بھارت میں مسلمانوں سے منسوب تاریخی مقامات اور عمارات کے نام تبدیل کرتی رہی ہے۔

بھارت 1947سے جب اس کی فوجیں 27اکتوبر 1947کوتقسیم برصغیر کے منصوبے اور کشمیریوں کی امنگوں کے برخلاف غیر قانونی طور پر سرینگر میں اتری تھیں، کشمیر کو اپنی کالونی سمجھ رہا ہے۔5اگست 2019کو مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کا مودی حکومت کاغیر قانونی اقدام کشمیر کو ایک نوآبادی بنانے کی جانب ایک اور قدم تھا۔ مقبوضہ جموں وکشمیرکو اپنی کالونی بنانا طویل عرصے سے راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا خواب رہا ہے۔ مقامی آبادی کو نظرانداز کرنا اور زمینوں پر قبضے کی پالیسیاں مقبوضہ علاقے میں مودی کے نوآبادیاتی منصوبے کی واضح مثالیں ہیں۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا ہندوتوا قوتوں کا خواب رہا ہے۔بھارت اپنے نوآبادیاتی منصوبے کے تحت غیر کشمیری ہندوئوں کو علاقے میں آباد کر کے مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل  اور بھاری تعداد میں فوجیوں کی تعیناتی کے ذریعے کشمیر کے قدرتی وسائل کا بے دریغ استحصال کر رہا ہے۔ مودی کشمیر میں نوآبادیاتی منصوبے کو توسیع دینے کے لیے بھارتی کاروباری کمپنیوں اور ٹائیکونز کا استعمال کر رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارت کا نوآبادیاتی منصوبہ ان ہی خطوط پر آگے بڑھ رہا ہے جس طرح اسرائیل نے فلسطین میں زمینوں پر قبضہ کیا تھا۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں نوآبادیاتی اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی واضح خلاف ورزی ہیں۔  بھارتی بلڈوزر کشمیر میں جس وسیع پیمانے پر تباہی مچارہے ہیں اور جس بے رحمی سے ہر چیز کو روندا جارہا ہے اس سے یہ معلم ہوتا ہے کہ ہندوتوا استعمار کشمیریوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور ان کی زمینوں پر قبضے کے جنون میں مبلا ہے جو اقوام عالم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

افسوس کا عالم ہے کہ  مودی کی اس ننگی جارحیت پر عالمی سطح پر خاموشی چھائی ہوئی ہے ۔انسانی حقوق، جمہوریت، مساوات حق خودارادیت اور آزادیوں کے ضابطے بنانے والے ایک قوم کی بقاء کی قیمت پر بھارت کی بڑی مارکیٹ سے اپنے حقیر  اقتصادی مفادات  وابستہ کئے ہوئے ہیں اور اسکو چین کے خلاف ایک  مہرے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ امن وانصاف اور حقوق و آزادی کے یہ ٹھیکیدار کیا مصلحتوں سے کام لیتے ہوئے ایک ایسی قوم کو مٹتا دیکھیں گے جو بھارت کے وجود سے بہت پہلے اپنا خودمختار وجود رکھتی تھی؟ اس روش کے ساتھ کل تاریخ ان کو کن الفاظ سے یاد کرے گی؟

 

 

 

 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button