بھارت اور اسرائیل نہ صرف امن اور پرامن بقائے باہمی کے بدترین دشمن ہیں بلکہ یہ دونوں قابض اور جابر قوتیں کشمیری اور فلسطینی عوام کا قتل عام ایک جیسے طرز پر کرتی ہیں۔بھارت اگر برہمن سامراج ہے تو اسرائیل صہیونی قوت ہے۔یہ دونوں برہمن اور صہیونی سامراج تمام عالمی قوانین اور اصولوں کو پائوں تلے روندھ کر کشمیری اور فلسطینی عوام کو ان کی مرضی اور خواہشات کے برعکس طاقت کی بنیاد پر غلام بنائے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں سامراج ایک تو ان کی ناجائز اور غاصبانہ غنڈہ گردی اور قبضے کے خلاف کشمیری اور فلسطینی عوام کی جانب سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق جدوجہد کو کچلنے کے نام پر قتل و غارت کرنے میں کوئی شروم وحیاء محسوس نہیں کرتے بلکہ دونوں مظلوم اقوام کی سرزمین کو ہتھیانے میں ایک جیسے اقدامات اور سوچ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔سرزمین کشمیر اور سرزمین فلسطین پرغاصبانہ قبضے کی تاریخ قریب قریب ایک جیسی ہے۔جہاں بھارت کے برہمن سامراج نے 27 اکتوبر 1947 میں مقبوضہ جموں وکشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرکے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مٹی پلید کی ہے وہیں صہیونی سامراج نے مارچ 1948 میں صہیونی ریاست کے قیام کا اعلان کرکے ارض فلسطین کے سینے میں خنجر گھونپا۔صہیونی اسرائیل نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دنیا بھر کے یہودیوںکو اہل فلسطین کی سرزمین پر بلا کر اپنے ناجائز اور غاصبانہ قبضے کو دوام بخشا اور آج پوری سرزمین فلسطین اور اس میں رہنے والے فلسطینی اسرائیل کے رحم و کرم پر ہیں۔
ارض فلسطین جو کہ انبیاء کی سرزمین کہلاتی ہے اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس بھی اسرائیلی دسترس سے محفوظ نہیں ہے اور اس میں اہل فلسطین کو نماز جمعہ کی ادائیگی سے بار بار طاقت کی بنیاد پر روکا جاتا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ اہل فلسطین کو ان کی مرضی اور منشاکے برعکس زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاچکا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔نہ صرف ان کے گھروں کو بلڈوزروں سے ملیا میٹ کیا جاتا رہا بلکہ زیتوں کے باغات کے باغات تختہ و تاراج کیے جاتے رہے۔انہی اپنی سرزمین پر بے وطن کیا گیا۔ان کے جوانوں کا قتل اور ان کی خواتین گرفتار کرکے اسرائیلی جیلوں میں برسہابرس سڑائی جاتی ہیں ،ان کی عز ت وحرمت پامال اور ان کے آنچل فوجی تربیت یافتہ کتوں سے نوچ ڈلوائے گئے۔اسی درندگی اور بربریت کے درمیان 07اکتوبر 2023 کا دن بھی آیا ،جب ارض فلسطین کے بیٹوں نے تمام حساب چکانے کا حتمی فیصلہ کرکے اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کے دعوے کو پاش پاش کیا۔تو جواب میں اسرائیل نے اپنے آقاوں امریکہ،فرانس،برطانیہ،جرمنی اور کینیڈا کی مدد سے غزہ کو زمیں بوس کیا اور چالیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور اسی ہزار زخمی کیے۔شہدا اور زخمیوں میں خواتین اور بچوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے،جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ اسرائیل نسل کشی کی پالیسی پر مکمل عمل پیرا ہے۔اسرائیل 75000ٹن بارود غزہ اور رفح پر گرا چکا ہے ۔کیا ہسپتال ،کیا سکول ،کیا مساجد اور کلیسا کوئی عمارت باقی نہیں بچی ہے۔جس پر اقوام متحدہ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میںکہا ہے کہ غزہ کا ملبہ اٹھانے یا صاف کرنے میں 14برس لگ جائیں گے۔ البتہ اہل غزہ کا جذبہ اور ہمت اسرائیلی بربریت اور خون آشامی پر بھاری ہے۔انہیں اپنے شہدا کو دفنانے کیلئے جگہ بھی کم پڑگئی ہے مگر وہ پھر بھی اپنے تباہ شدہ گھروں اور عمارتوںکے ملبے پر اللہ کی کبریائی کا ڈنکابجالاتے ہیں۔اب تو خود پورا یورپ ان کی زبان بن چکا ہے۔پورے یورپ کے تعلیمی ادارے اسرائیلی بربریت اور فلسطینییوں کی حمایت سے گونج رہے ہیں ،جس سے پورا یورپ لرزا براندام ہے۔
دوسری طرف مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارت اپنے ہم نوا اسرائیلی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ایک طرف کشمیری عوام کا قتل عام کیا جاتا ہے،تو دوسری طرف اہل کشمیر کو ان کی زمنیوں،جائیداد و املاک اور رہائشی مکانوں سے محروم کیا جارہا ہے۔آئے روز مقبوضہ جموں وکشمیر کے مختلف علاقوں میں لوگوں کی زمینوں اور رہائشی مکانوں کو قبضے میں لیا جاتا ہے،اور اس کیلئے اسی طرح طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے ،جیسے اسرائیل فلسطین میں کرتا ہے۔ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کرکے انہیں مقبوضہ جموں وکشمیر کی دور دراز جیلوں کے علاوہ بھارت میں لے جاکر بدنام زمانہ عقوبت خانوںمیں بند کیا گیا ہے۔حد تو یہ ہے کہ کشمیری خواتین بھی بھارتی عقوبت خانوں میں بند کی گئی ہیں۔ان تمام ظالمانہ اور سفاکانہ کاروائیوں کا مقصد اہل کشمیر کو ان کی خون سے سینچی تحریک آزاد ی سے دستبردار کرانا ہے جس میں 1947سے لیکر آج تک سوا پانچ لاکھ کشمیری اپنی جانیں قربان کرچکے ہیںاور آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے قبضے میں بھرپور مماثلت پائی جاتی ہے اور دونوں کا مقصد انسانوں کا قتل عام کرکے زمینوں کا حصول ہے۔
ایسے میںمودی کی فسطائی سوچ اور غیر جمہوری اقدامات جنوبی ایشیا کی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔بھارت 1947 کے بعد سے ہی جنوبی ایشیائی خطے میں امن کا اصل دشمن رہا ہے اور اس نے یہ دشمنی پالنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔بھارت کے تسلط پسندانہ عزائم اور منصوبے علاقائی امن و استحکام کیلئے جہاں حقیقی خطرہ ہیں،وہیں2014 میںبھارت میں مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے علاقائی امن استحکام کو لاحق خطرات کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔آزاد جموں وکشمیر کے بارے میں ہندتوا BJPرہنماوں کے بے بنیاد اور من گھڑت دعوے اس جانب اشارہ ہیں کہ مودی علاقائی امن و سلامتی اور استحکام کیلئے حقیقی خطرہ ہیںاور اگر ہندتوا بھارتی حکمرانوں کو لگام نہ دی گئی تو یہ خطہ ایٹمی جنگ سے دوچار ہوگا ،جس کے بعد کچھ بھی نہیں بچے گا۔بھارت کئی دہائیوں سے تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔مودی حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019 میں غیر قانونی اور فسطائی سوچ پر مبنی اقدامات یہ ثابت کرتے ہیں کہ بھارت کم از کم علاقائی امن واستحکام کے بارے میں فکر مند نہیں ہے۔
27 اکتوبر 1947 میں سرینگر میں اپنی ناپاک فوجیں اتارنے کے بعد سے بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں رائے شماری کرانے کی اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی تمام کوششوں کو نہ صرف ناکام بنا دیا بلکہ ہر اس اقدام میں روڑے اٹکائے،جس کا مقصد مسئلہ کشمیر کو اس کے تاریخی پس منظر اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق پرامن طریقے پر حل کرنا ہے۔بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا استعمال کرکے کشمیری عوام کی حق خود ارادیت کی جائز اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق جدوجہد کو کچلنے کیلئے کر رہا ہے۔بھارت کے برعکس پاکستان خطے میں امن کے حصول کی کوششوں میں ہمیشہ پیش پیش اور بھر پور تعاون کر رہا ہے۔پاکستان کیساتھ بگڑتے بھارتی تعلقات کی ذمہ دار اس کی مذموم سرگرمیاں ہیں۔جس میں سرفہرست مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کی ریاستی اور غیر ملکی سرزمین پر دہشت گردی کا ارتکاب ہے۔پھر چاہیے وہ کلھبوشن یادیو کی صورت میں بھارتی نیوی کے حاضر سروس آفیسر کی صوبہ بلوچستان سے گرفتاری ہو یا پاکستان کے اندر معصوم لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی کاروائیاں ہوں۔پاکستان نے بار بار دنیا کو جنوبی ایشیا میں بھارت کے مذموم غیر مستحکم کردار سے آگاہ کیا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ دنیا برصغیر جنوبی ایشیائی خطے میں امن کی ضمانت کے حصول کیلئے بھارتی تسلط پسندانہ عزائم کو لگام دے۔دنیا کو بھارت پر دباو ڈالنا چاہیے کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے میں ضروری اقدامات کرے،جس کیلئے مسئلہ کشمیر کا پرامن حل ناگزیرہے۔مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر نہ تو یہ خطہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے اور نہ ہی پاک بھارت تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں۔جن کی بحالی کیلئے ڈھول پیٹا جاتا ہے۔جنوبی ایشیا میں امن و استحکام مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کیساتھ مشروط ہے۔ امن کے تمام راستے مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہوکر گزرتے ہیں۔بھارت جتنا جلد اس بات کا ادراک کرے ،اتنا ہی نہ صرف اس کے بلکہ اس پورے خطے کے امن و استحکام کے حق میں بہتر ہوگا۔بھارت اور اسرائیل گزشتہ 77 برسوں سے اہل کشمیر اور اہل فلسطین پر ظلم و جبر کے ہر حربے اور ہتھکنڈے ازما چکے ہیں۔انہیں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکا،آئندہ بھی ذلت و رسوائی ہی ان دونوں کا مقدر ہے۔یہ بات اب ہر کوئی محسوس کرتا ہے کہ اہل کشمیر اور اہل فلسطین کو ان کا حق دیئے بغیر دنیا میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔اگر سمجھ نہیں تو دنیا کے نام نہاد انسانی حقوق کے ٹھیکداروں اور خود کو علمبردار کہنے والوں کو نہیں ہے،جو اسرائیلی اور بھارتی بربریت و سفاکیت پرخاموش تماشائی بنے اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں،جس کی ان ظالموں کو بھی سزا بھگتنا پڑے گی۔