نئی دلی فسادات کے 3سال بعد بھی کئی مسلم نوجوان جیلوں میں قید
نئی دلی 08مارچ(کے ایم ایس)فروری 2020 میں بھارتی دارالحکومت نئی دلی میں ہونیوالے فسادات میں مبینہ طورپر ملوث ہونے پر کئی مسلم نوجوانوںکو گرفتار کیاگیا تھا جو تاحال جیل میں قید ہیں ۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مودی حکومت کی طرف سے متعار ف کرائے گئے متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف شمالی دلی میں ہونے والے فسادات میں 53 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں بیشتر مسلمان تھے۔ اس کے علاوہ فسادات میں کروڑوں روپے کی املاک کوبھی تباہ کیا گیاتھا۔بھارتی پولیس نے بہت سے کارکنوں اور نوجوانوں کو معمولی الزامات کے تحت گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیاتھا اور ان میں سے بہت سے اب بھی نئی دہلی کی مختلف عدالتوں میں اپنے مقدمات لڑ رہے ہیں۔ فروری 2020 میں ہونیو الے فسادات کے بعد شالوں اور اسکارف کے برآمد کنندہ محمد سلیم خان کو دلی پولیس کے خصوصی سیل نے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے اور تعزیرات ہند کی متعدددفعات کے تحت درج مقدمہ میں گرفتار کیا تھا ۔ اسی مقدمے کے تحت جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق سٹوڈنٹ لیڈر علم عمر خالد اور دیگر منڈولی جیل میں قید ہیں۔سلیم خان کی اہلیہ شوینہ خان اور ان کے بچے جیل سے سلیم کی طرف سے لکھے گئے خطوط پڑ ھ کر اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں۔جیل میںقید سٹوڈنٹ لیڈر اور کارکن عمر خالد کی والدہ نے کہاہے کہ بھارت میں اب مسلمانوں کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ پریس رپورٹس کے مطابق، انہوں نے دعوی کیا ہے کہ ان کے بیٹے کے خلاف تمام الزامات سیاسی ہیں اور بھارت میںمسلمانوں کوانتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ انہوں نے یو اے پی اے کے کالے قانون کی بھی مذمت کی جس میں مودی حکومت کی طرف سے 2019میں کی گئی ترمیم کے بعد اب کسی بھی شہری کو دہشت گرد قرار دیکرکئی مہینوں یا برسوں تک بغیر مقدمہ چلائے جیل میں رکھا جاسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ان کے بیٹے نے حکومت کی غیر منصفانہ پالیسیوں اور امتیازی قوانین جیسے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف بات کی تھی جس کے ذریعے خاص طورپر مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیاہے۔عمر کی والدہ نے کہا کہ وہ مسلمانوں اور ان کے حقوق کے بارے میں مودی حکومت کے رویہ پر سوال اٹھا رہے تھے۔ صرف عمر خالد اور سلیم خان اکیلے نہیں ہیں جو بغیر کسی مقدمے کے جیلوں میں قید ہیں بلکہ مودی حکومت نے بڑی تعداد میں اس کالے قانون کے تحت لوگوں کو قید کر رکھا ہے جنمیں بیشتر مسلمان ہیں ۔ مودی حکومت کے ناقدین کاکہنا ہے کہ حکومت مسلمانوں کو ان کے ناکرہ گناہوں کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے ۔ انسانی حقوق کے گروپوں کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان مقدمات میں پولیس کی تفتیش میں تعصب، تاخیر، غلطی، مناسب ثبوت کی کمی اور مناسب طریقہ کار پر عمل کرنے میں ناکامی کی نشاندہی کی گئی ہے۔رپورٹس میں بتایاگیا ہے کہ حکمران مودی حکومت نے اقلیتوں کے خلاف مختلف امتیازی قوانین اور پالیسیاں وضع کی ہیں۔