بھارت کو آہستہ آہستہ یک جماعتی ریاست کی طرف دھکیلا جارہا ہے :نیویارک ٹائمز
نیویارک یکم اپریل(کے ایم ایس) امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں کہاہے کہ بھارت کو آہستہ آہستہ یک جماعتی ریاست کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔
کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق اخبار نے لکھا ہے کہ جیسے جیسے بھارت 2024کے عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے، وزیر اعظم نریندر مودی کی ملک کے جمہوری اداروں پر گرفت بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ اسے ملکی عدلیہ سے تھوڑا سا جھٹکا لگتا ہے، لیکن بھارت کے سیاسی تجزیہ کار، سفارت کار اور سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ مودی کی پارٹی اپنے تحفظ کے لیے عدالتوں پر انحصارکرتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی جتنے چیلنجز کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، ان میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اخبار نے لکھا ہے کہ جب کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو مودی کی آبائی ریاست گجرات میں سورت کی ایک عدالت نے دو سال قید کی سزا سنائی اور اگلے ہی دن انہیں لوک سبھا کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا گیا تو وہاں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اڈانی کے معاملے پر اپوزیشن کی مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے مودی کے ناقدین کو ایک اور مسئلہ مل گیا ہے۔ راہل کے معاملے پر کانگریس اور اپوزیشن پارٹیاں اب احتجاج کر رہی ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ میں مختلف مناظر دیکھے گئے۔ راہل کی سزا سے یہ پیغام جا رہا ہے کہ مودی حکومت انہیں پارلیمنٹ سے بے دخل کرنا چاہتی ہے اور آنے والے سالوں میں انہیں الیکشن لڑنے سے روکنا چاہتی ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تنازعہ 2019میں راہل گاندھی کے ایک سیاسی بیان سے جڑا ہوا ہے۔ راہل گاندھی نے مودی کا موازنہ مودی نام کے ممتاز چوروں کے جوڑے سے کیا۔ لیکن کانگریس کی اتحادی جماعتوں نے عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزا کو میچ فکسنگ قرار دیا۔نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ ہندو قوم پرست سیاست اور مختلف فلاحی اسکیموں کی وجہ سے مودی بہت طاقتور ہو گئے ہیں۔ فلاحی اسکیمیں زیادہ تر وزیر اعظم کے نام پر ہیں جن کی بہت زیادہ تشہیر کی جاتی ہے۔ تمام تر دبائو، ترغیب اور طاقت کے باعث عدالتی نظام اپنی مرضی کے مطابق جھک گیا ہے اور تمام مخالفین عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ کچھ ججز، یا سپریم کورٹ کے کچھ ججوں کو حکومت کے ساتھ بہت نرمی برتتے دیکھا گیا۔ ان کے فیصلے یا تو حکومت کے حق میں ہوتے ہیں یا پھر کچھ ججوں کے فیصلوں نے مودی حکومت کو اہم آئینی چیلنجوں سے بچا لیا۔ ایسے ججوں کو پارلیمنٹ میں نشست سے نوازا گیا، جب کہ کچھ کو کمیشن میں عہدہ یا کسی ریاست کا گورنر بنا کر نوازا گیا۔ جنہوں نے تھوڑی سی بھی آزادی دکھانے کی کوشش کی، انہیں تبادلوں اور کیریئر میں جمود کا سامنا کرنا پڑا۔ تمام عدالتی تقرریاں روک کر ایک پیغام بھیجا گیا۔نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ مودی کے اتحادی بھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ مودی سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف شکایات درج کی گئیں اور انہیں عدالتی مقدمات میں پھنسایا گیا جو برسوں تک چلے۔ بعض اوقات کچھ شکایتیں کاپی پیسٹ کی نظر آتی ہیں، سب کی ایک ہی شکایت۔ کچھ کوپرانے سوشل میڈیا پوسٹس پر پھنسایاگیا۔امریکی اخبار نے لکھاکہ قومی دھارے کا میڈیا بڑی حد تک بزدل ہو چکا ہے۔ سول سوسائٹی سے اختلاف کرنے والوں کو ہراساں یا خاموش کر دیا گیا ہے۔ اہم پالیسیوں پر پارلیمانی بحث ختم ہوچکی ہے۔ تاہم بی جے پی نے بار بار اس بات سے انکار کیا کہ ان کا عدالتی نظام پر کوئی اثر ہے۔