مودی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیرمیں اپنے جرائم کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے: مسرت عالم بٹ
گروپ20 کے رکن ممالک سے مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے کی اپیل
نئی دہلی12 اپریل(کے ایم ایس) کل جماعتی حریت کانفرنس کے نظر بند چیئرمین مسرت عالم بٹ نے کہا ہے کہ نریندر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں جی 20کااجلاس منعقد کر کے علاقے میں اپنے جرائم کوچھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مسرت عالم بٹ نے جو اس وقت نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں نظربند ہیں، گروپ20 کے رکن ممالک کو بھیجے گئے ایک خط میں لکھا ہے کہ بھارت نے جی 20کا اجلاس اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ متنازعہ علاقے جموں و کشمیر میں منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جو سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اس کے فوجی قبضے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1989سے جب کشمیریوں نے اپنی آزادی کی تحریک کو تیز کیا، وہاں پر 5لاکھ سے زائد بھارتی فوجی تعینات ہیں، جس سے یہ دنیا کے سب سے زیادہ فوجی جمائو والے علاقوں میں سے ایک بن چکا ہے۔کچھ اندازوں کے مطابق علاقے میں تعینات بھارتی قابض فوجیوں کی تعداد 900,000 ہے، یعنی ہر دس شہریوںپر ایک فوجی پہرہ دے رہا ہے، جبکہ فوج شہری آبادی کواپنا دشمن سمجھتی ہے۔ فوجیوں کو نہ صرف متنازعہ سرحدوں پر بلکہ شہری علاقوں میں بھی تعینات کیا گیاہے۔ حریت چیئرمین نے کہاکہ اس صورتحال میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاںہورہی ہیں جن میںوادی میں پھیلے وسیع فوجی کیمپوں اور تفتیشی مراکز میں شہریوں پرتشدد، عصمت دری، جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، جبری مشقت اور انسانی ڈھال کے لیے عام شہریوں کا استعمال، فصلوں اور گھروں کی تباہی، آتش زنی، آبادی کو دہشت زدہ کرنے کے لیے بھارت نواز گروپوں کو مسلح کرناشامل ہے۔مسرت عالم بٹ نے کہا کہ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیرمیں G20 اجلاس کے انعقاد کی کوشش کر کے نہ صرف پاکستان کے خلاف جو کہ تنازعہ کشمیر کا بنیادی فریق ہے، فورم کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ مقبوضہ علاقے میں حالات معمول پرہونے کا تاثر دے رہا ہے۔ فروری 2019 میںکشمیرمیں نسل کشی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے بیان میں خبردار کیا گیا تھا کہ یہ خطہ نسل کشی کے دہانے پر ہے اور امریکی کانگریس کی سماعت کے دوران حالیہ امریکی انٹیلی جنس رپورٹ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اوربھارت اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے تصادم کا امکان ہے جو جی 20 ممالک کے لیے چشم کشا ہونا چاہیے کہ بھارت سفارتی غلطی کر رہا ہے جس سے پہلے سے کشیدہ اور حساس ماحول مزید بگڑ جائے گا۔جموں وکشمیر کے ایک شہری کے طور پرمیں مقبوضہ جموں وکشمیرمیں G20 اجلاس کی میزبانی کرنے کے بھارت کے فیصلے کے بارے میں اپنی گہری تشویش کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ جموں و کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جو دو ایٹمی طاقتوں بھارت اور پاکستان کے درمیان بنیادی تنازعے کا باعث ہے ۔ یہاں صورتحال کشیدہ اور غیر مستحکم ہے۔ بھارت کا جموں و کشمیر میں جی 20 اجلاس کی میزبانی کا فیصلہ عوام کی خواہشات اور امنگوں پر غور کیے بغیر انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ بھارت جموں و کشمیر کے لوگوں پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے بجائے اس کے کہ تنازعات کا باعث بننے والے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے بامعنی بات چیت شروع کرے۔مزید برآں انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ شری مہاراجہ ہری سنگھ (SMHS)ہسپتال سرینگر کے ریکارڈ کے مطابق جہاں زیادہ تر پیلٹ متاثرین کا علاج کیا جاتا ہے، 2016سے 2018کے وسط تک بھارتی فورسز کی طرف سے استعمال کیے گئے دھاتی چھروں سے 1253افراد اپنی بینائی سے محروم ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں عوامی مظاہروں پر طاقت کے وحشیانہ استعمال کی وجہ سے15ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے اور ان میں سے 4,500افراد پیلٹ لگنے سے زخمی ہوئے۔مزید برآں نیم بیوہ کی اصطلاح ان کشمیری خواتین کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن کے شوہر غائب ہو چکے ہیں۔ یہ خواتین نہیں جانتیں کہ ان کے جیون ساتھی مردہ ہیں یا زندہ۔نیم بیوائوں کے ان واقعات کا جبری گمشدگیوں اور گمنام قبروں کے جرائم سے گہرا تعلق ہے۔ یہ جبری گمشدگیاں بھارتی مسلح افواج نے کی ہیں۔ فی الحال کسی بھی انسانی حقوق کی تنظیم یا گروپ کو وسیع پیمانے پر تشدد اور دور دراز علاقوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے نیم بیوائوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہے۔ معلومات کی بندش کے باوجود جموں کشمیر کوئلیشن آف سول سوسائٹی نامی انسانی حقوق کے گروپ نے وادی کشمیر میں تقریبا پندرہ سو نیم بیوائوں کے بارے میں معلومات جمع کیں۔حریت چیئرمین نے کہا کہ گمنام قبروں، اجتماعی قبروں اور جبری گمشدگیوں کے جرائم کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ جموں و کشمیر اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن (SHRC)نے کچھ حقائق، شکایات اور شواہد کا نوٹس لیااور 2730گمنام قبروں کی تصدیق کی اور تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے ساتھ فرانزک جانچ اور ڈی این اے ٹیسٹنگ کی سفارش کی لیکن ان میں سے کسی بھی سفارش پر عمل نہیں کیاگیا۔ مزید برآں اپریل 2011میں مقبوضہ جموں وکشمیرکے سات اضلاع میں سات ہزار سے زیادہ گمنام قبریں پائی گئیں۔اسی طرح مسرت عالم نے کہا کہ لاپتہ افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن(اے پی ڈی پی)اور جموں و کشمیر کوئلیشن آف سول سوسائٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں 1989سے اب تک 8000سے زیادہ لوگ غائب ہو چکے ہیں۔ اے پی ڈی پی نے جموں ڈویژن کے دو اضلاع پونچھ اور راجوری میں 3844افراد کی گمنام اوراجتماعی قبروں کی موجودگی کے بارے میں ایک عرضی بھی دائر کی ہے اور اس کے جواب میں انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن نے بھی محکمہ پولیس اور راجوری اور پونچھ کے ڈپٹی کمشنروں کی طرف سے تصدیق کی بنیاد پر اجتماعی قبروں کی موجودگی کو تسلیم کیا۔حریت چیئرمین نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں صحافت، پریس کی آزاد ی اور آزادی اظہار پر ہمیشہ حملے ہوتے رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (OHCHR) کے دفتر کی 2019میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 1990کی دہائی سے اب تک 21صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ فرنٹ لائن کی رپورٹ کے مطابق کشمیری صحافیوں کو اکثر پولیس کے کرمنل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے اپنے اثاثوں، بینک کھاتوں اور رشتہ داروں کے بارے میں تفصیلات دینے والے فارم بھرنے کے لیے کالز موصول ہوتی ہیں۔مسرت عالم نے امید ظاہر کی کہ G20رہنما اور انسانی حقوق کے علمبردار مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف بات کریں گے۔ مزید برآں ہم G20 ممالک کے رہنمائوں سمیت عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مقبوضہ علاقے میں G20 ایونٹس کی میزبانی کے بھارت کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ہم G20 ممبران پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی امنگوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔