مقبوضہ جموں و کشمیر

بھارتی سپریم کورٹ میں دفعہ 370منسوخی کیخلاف دائر عرضداشتوں کی سماعت جاری

نئی دلی:
بھارتی سپریم کورٹ میں دفعہ 370جس کے تحت جموں وکشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی کی منسوخی کے خلاف دائر عرضداشتوں کی سماعت جمعرات کو بھی جاری رہی۔
سماعت کے دوران سینئر وکیل ایڈووکیٹ دشیانت دوے نے اپنے دلائل دیے ۔ انہوں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ مودی حکومت کی طرف سے 5اگست2019کو دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کی مشق بھارتی آئین کے ساتھ ایک دھوکہ ہے اور یہ آئین کی مکمل طور پر خلاف ورزی ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صدر یا پارلیمنٹ کے ذریعے طاقت کا استعمال آئین کے تحت ہونا چاہیے۔انہوں نے دلیل پیش کی کہ آئین ہند صدر اور پارلیمنٹ دونوں کو دفعہ 370(3)کو کسی بھی طرح سے چھیڑ چھاڑ سے روکتاہے ۔سماعت کے دوران انہوں نے اپنی تحریری گذارشات کاذکر بھی کیا جس میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی منشور کا حوالہ بھی شامل تھا ۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ بی جے پی نے اپنے سیاسی مفادات کیلئے دفعہ 370کو منسوخ کیا، پارٹی نے انتخابی منشور میںمیں کہا تھا کہ وہ برسر اقتدار آکر دفعہ 370کو منسوخ کریگی ۔ ایڈووکیٹ دوبے نے واضح کیاکہ کسی بھی سیاسی جماعت کا منشور آئین کے خلاف نہیں ہوسکتا ہے۔ 2015 میں، الیکشن کمیشن نے رہنما خطوط جاری کیے تھے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے منشور آئین کے تحت ہونے چاہیں۔انہوں نے کہا کہ دفعہ 370کو مودی حکومت نے اپنے سیاسی مفاد کیلئے منسوخ کیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ بی جے پی نے منشور میں لوگوں سے کہاتھا کہ وہ انہیں ووٹ دیں اور وہ دفعہ 370 کو منسوخ کردیگی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ غیر متعلقہ تحفظات پر مبنی مفادات کے غور و فکر کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ دوبے نے دلیل دی کہ مودی حکومت کو دفعہ 370(3)کے تحت دفعہ 370کو منسوخ کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ ایک غلط بیانیہ بنایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر دفعہ 370 کی وجہ سے بھارت کا حصہ نہیں ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ دفعہ 370کو منسوخ کرنے کیلئے مودی حکومت کی طرف سے اختیار کیا گیا طریقہ کار دھوکہ دہی کے مترادف ہے۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کابنچ 2 اگست سے دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف دائر عرضداشتوں کی سماعت جاری رکھے ہوئے ہے ۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button