پاکستان اور ترکی تمام بنیادی مسائل پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں: وزیراعظم
اسلام آباد 31مئی (کے ایم ایس)وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور ترکی جموں و کشمیراور شمالی قبرص سمیت بنیادی قومی مفاد کے تمام معاملات پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں ۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق وزیراعظم نے ترک نیوز ایجنسی انادولو کو انٹرویو دیتے ہوئے تنازعہ جموں و کشمیر پر اصولی حمایت کرنے پر ترک قیادت کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اپنے ترکی کے تین روزہ سرکاری دورے سے قبل کہا کہ پاکستان اور ترکی دونوں علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر ایک جیسے خیالات رکھتے ہیں اور دو طرفہ ، علاقائی اور کثیرالجہتی فورمز پر ایکدوسرے سے قریبی تعاون کرتے ہیں۔شہباز شریف نے پاک ترک تعلقات کو مثالی قرار دیتے ہوئے کہا کہ تاریخی تعلقات مشترکہ مذہبی ، ثقافتی اور لسانی روابط پر استوار ہیں اور دونوں طرف سیاسی تبدیلیوں سے بالاتر ہیں۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک سفارتی تعلقات کے قیام کی 75ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ان ساڑھے سات دہائیوں میں دونوں ممالک تمام تبدیلیوں کے باوجود ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان نے جیو اسٹریٹجی سے جیو اکنامکس کی طرف قدم بڑھایا ہے ، ہم خاص طور پر خطے میں رابطے، اجتماعی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد پر شراکت داری قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو باہمی مفاد کے تجارت سے بہت کچھ حاصل کرنا ہے۔تاہم انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیرکے حوالے سے بھارت کے05اگست 2019کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے بعد پاکستان نے ایک اصولی موقف اختیار کیا اور دوطرفہ تعلقات کو محدود کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک غیر منصفانہ اور ظالمانہ پالیسی کے ذریعے کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے قابل مذمت بھارتی منصوبے کی پاکستان کی طرف سے واضح مذمت کی عکاسی کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں پر مسلسل ظلم و بربریت ، مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوششوں اور کشمیریوں کے حق خودارادیت سے بھارت کی جانب سے مسلسل انکار کی وجہ سے تجارتی محاذ پر پیش رفت کا تصور کرنا مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بھارت کو 05 اگست 2019کے اپنے اقدامات پر نظرثانی کرنی ہوگی اور اپنے غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے مقبوضہ علاقے میں تقسیم در تقسیم اور آبادی کے تناسب میں تبدیلی کوروکنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ باہمی مفاد کے تجارت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے بات چیت اور مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری بھارت پر ہے۔