مقبوضہ جموں وکشمیر پر اپنے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کو دوام بخشنے کی بھارتی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے کیونکہ G20 ممالک کے متعدد سربراہاں اور وفود نے سرینگر میں ہونے والے اجلاس میں شرکت سے انکار کیا۔ چین نے متنازعہ علاقے میں اجلاس منعقد کرنے کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر میں G20 اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کی پہل کی۔جس سے بھارت کو سفارتی دھچکا پہنچا ہے۔ چین، ترکیہ، سعودی عرب، انڈونیشیا ،مصر اورمیکسکو سرینگر میں منعقدہ جی 20 اجلاس سے دستبردارہوئے۔ سرینگر میں جی 20 اجلاس کا چین اور دیگر ممالک کا بائیکاٹ مقبوضہ جموں و کشمیرکے مظلوم مگر حریت پسند عوام کے ساتھ یکجہتی کیلئے ایک بہادرانہ ا قدام ہے۔ بہت سے ممالک کی طرف سے سرینگر میںG20 اجلاس کے بائیکاٹ کو مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنے غیر قانونی اور ناجائز قبضے کو طول دینے کی ناکام بھارتی سفارتی کوششوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔برطانوی اخبار دی گارڈین نے لکھا ہے کہ G20 فورم کی بھارتی صدارت تنازعات میں گھری ہوئی ہے کیونکہ چین اور دیگر ممالک نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں فورم کی تقریب کا مکمل بائیکاٹ کیا ۔ سرینگر میںجی 20 اجلاس کا انعقاد بھارت کا دوغلا پن ہے اور یہ مذموم حربہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں زمینی حقائق کو بدل نہیں سکتا۔صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (Committee to Protect Journalists ) کا کہنا ہے کہ ایک جانب جب بھارت نے سرینگر میں جی 20 سربراہی اجلاس منعقد کیا ہے،تو دوسری جانب مقبوضہ جموں وکشمیر میں آزادی صحافت پر حملے بھی جاری ہیں ۔ بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں G20 اجلاس سے پہلے ہی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، چھاپوں، تلاشیوں،ڈرون کیمروں کے ذریعے نگرانی اور ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ دو ہزار سے زائد حریت رہنمائوں اور نوجوانوں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں بند کیا گیا۔بھارت جودنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کا دعوی کرتا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں کے تحت کشمیری عوام کے حقوق غصب کر رہا ہے تو دنیا کس طرح تماشائی بن سکتی ہے؟ بھارت کیسے یہ دعوی کر سکتا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں حالات معمول پر آ گئے ہیں جب سرینگر کو G20 اجلاس کے انعقادکیلئے ایک فوجی قلعے میں تبدیل کیا گیا ہے۔سخت سیکورٹی پر بھارتی مبصرین بھی بول اٹھے کہ سیاحت کے فروغ کیلئے ہونے والی کانفرنس میں بھارتی کمانڈوز کی تعیناتی اور چار دائروں پر مشتمل سیکورٹی حصار سے دنیا کو کیا پیغام گیا۔جی 20کے مندوبین کے سری نگر پہنچتے ہی ان کے شیڈول میں تبدیلی کر دی گئی، بھارتی حکومت نے سیکورٹی خدشات کے باعث مندوبین کاسرینگر سے51 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع مشہور صحت افزا مقام گلمرگ کا دورہ منسوخ کر دیا ہے ۔ پہلے شیڈول کے مطابق مندوبین 24مئی کا پورا دن صحت افزا مقام گلمرگ میں گزارنے والے تھے،مگر ایک بھارتی ٹی وی نے خبردی کہ گلمرگ میں مندوبین پر حملہ ہو سکتا ہے ۔ مسلمان اکثریت والے تینوں سربراہاں ممالک ترکیہ،سعودی عرب اور انڈو نیشیا جبکہ مصر نے اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے وفود کی رجسٹریشن نہیں کرائی۔مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں جی 20کا تین روزہ اجلاس سخت سیکورٹی حصار میں شروع تو ہوا تاہم بھارت کی ہزیمت کم نہیں ہورہی اور کانفرنس شروعات سے پہلے ہی دم توڑگئی کیونکہ چین ، سعودی عرب ، ترکیہ نے کانفرنس کا بائیکاٹ کیا جبکہ مصر ، انڈونیشیا سمیت کئی ممالک کے نمائندے شریک نہیں ہوئے ۔ دنیا کی بیس عالمی معاشی طاقتوں کے گروپ جی20 کا سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کا تین روزہ اجلاس22 مئی کوسری نگر میں شروع ہو ا اور آج اختتام پذیر ہورہا ہے۔چین ، سعودی عرب، ترکیہ اور مصر اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ جی بیس کے مندوبین نئی دہلی سے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے سری نگر پہنچے تاہم ان میں جی بیس کا کوئی سربراہ شامل نہیں ہے۔ جی 20تنظیم کے رکن ممالک میں بھارت، امریکہ، چین، برطانیہ، روس، سعودی عرب، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان، ارجنٹائن، برازیل انڈونیشیا،میکسیکو، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا اور ترکیہ سمیت یورپی یونین شامل ہے۔جبکہ مصر کو مبصر کا درجہ حاصل ہے۔
سرینگرمیں G20 اجلاس کے انعقاد کا مقصد محض پروپیگنڈہ پھیلانا اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرناتھا، جس کی تصدیق اقوام متحدہ کے اقلیتی امور کے خصوصی نمائندہFernand de Varennes نے بھی اپنے ایک غیر معمولی بیان میں پہلے ہی کی ہے کہ سرینگرمیں گروپ 20 اجلاس کے انعقاد کے بھارتی اقدام کا بنیادی مقصد مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارتی قبضے کو جائز ٹھراناہے۔ بھارت سرینگرمیں G20 اجلاس کے نام پر کشمیری عوام کی لازوال جدوجہد آزادی کے بارے میں حقیقت کو مسخ کرنا چاہتا ہے۔G20 ممالک کو چاہیے کہ وہ بھارت سے تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے پر مجبور کریں۔ کشمیری عوام مودی کو جی 20 اجلاس کے انعقاد کے نام پر جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو کمزور کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔
سرینگر میں جی 20کا تین روزہ اجلاس22مئی کو سخت سیکورٹی حصار میں شروع تو ہوا تاہم بھارت کی ہزیمت کم نہیں ہورہی اور کانفرنس شروعات سے پہلے ہی دم توڑگئی۔پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جس فورم کی تشکیل کا مقصد عالمی اقتصادی مسائل تھا لیکن اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی کرتے ہوئے ا س کی میزبانی متنازعہ خطے میں کی جا رہی ہے۔ بھارت نے G-20 کی صدارت کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔بلاول بھٹو زرداری 22 مئی کو احتجاج میں شرکت کیلئے آزاد کشمیر آئے تھے۔انہوں نے آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت جی20 کے چیئر کی حیثیت سے اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کر رہا ہے، بھارت سیاحتی گروپ کے اجلاس کی میزبانی سرینگر میں کر رہا ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے پاکستان اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا ہے، یہ ہماری چوائس نہیں بلکہ ہمارا فرض ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداوں اور کشمیر ی عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ہم بھارت سمیت تمام پڑوسیوں سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، تاہم اچھے تعلقات متنازعہ اقدامات سے قائم نہیں ہوسکتے ہیں، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن مسئلہ کشمیر کے حل سے وابستہ ہے۔بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے، شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس میں شرکت کے دوران بھی بھارت پر زور دیا گیاکہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میںحالات 5اگست 2019 سے پہلے کی طرح بحال کرے تاکہ آگے بڑھا جائے۔
سرینگر میں جی 20کے ناکام اجلاس کے خلاف مقبوضہ جموں و کشمیر اورآزادجموں وکشمیرمیں مکمل ہڑتال کی گئی جبکہ مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت نے مقبوضہ خطے میں سخت پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔سرینگر میں جھیل ڈل کے کنارے تقریب کے اردگرد بھارتی فوجیوں،پیراملٹری فورسز، ایلیٹ نیشنل سیکورٹی گارڈز اور میرین کمانڈوز کی بھاری تعداد تعینات کی گئی تھی۔ دکانداروں بالخصوص لال چوک، ریذیڈنسی روڈ، بڈشا ہ چوک ، مائسمہ اورسرینگرکے دیگر علاقوں کے دکانداروں کو بھارتی فوجیوں اور پولیس نے اپنے کیمپوں اور تھانوں میں طلب کرکے22مئی کو اپنی دکانیں کھولنے کی ہدایت کی تھی۔ حکم کی تعمیل نہ کرنے کی صورت میں انہیں سنگین نتائج سے خبردار کیا گیا تھا۔ تاہم دھمکیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے کشمیری تاجر برادری نے 22مئی کو اپنی دکانیں بند رکھیں تاکہ متنازعہ خطے میں گروپ 20 اجلاس کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا جا سکے۔سڑکیں سنسان اور ٹریفک کی نقل و حرکت کہیں نظر نہیں آئی،ہر طرف ہو کا عالم ہے۔بھارتی فوجیوں اور ان کی گاڑیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ مقامی لوگوں نے اپنی نقل و حرکت بھی محدود کی ہے اور انہوںنے گھروں کے اندر ہی اپنے آپ کو مقید کیے رکھا۔
مقبوضہ کشمیر میں پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے بھارت کے شہر بنگلورو میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو سچ بتائوں، اگر آپ آج جموں و کشمیر کا دورہ کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ وہ جگہ جس کو آرٹیکل 370کی منسوخی کے بعد ایک کھلی جیل میں تبدیل کیا گیا تھا ، اب گوانتاناموبے جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے یہاں تک کہ گھروں پر بھی قبضہ کر لیا گیا ہے۔ تین، چار، پانچ سطحوں کی سیکیورٹی ہے، گھروں میں سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا گیا ہے ہے۔انہوں نے کہا کہ جی 20 اجلاس سے بی جے پی کی تشہیرتو ہو سکتی ہے، لیکن جنوبی ایشیائی ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن یعنی سارک کے اجلاس سے خطے کے مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں جی 20اجلاس کی چین کی مخالفت پر محبوبہ مفتی نے کہا کہ یہ آئین کی دفعہ370کو منسوخ کرنے کا نتیجہ ہے۔اب تنازعہ کشمیر پرچین بھی پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔بی جے پی کہتی ہے کہ دفعہ 370کی منسوخی سے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ اب چین بھی یہاں قدم جما رہا ہے۔ وہ تنازعہ کشمیر کی بات کر رہاہے جس پر پہلے صرف پاکستان بات کرتا تھا۔ چین کو مسئلے میں لانے کا سہرا بی جے پی کو جاتا ہے۔
دنیا کب تک مسئلہ کشمیر کی حساسیت پر اپنی آنکھیں بند کیے رکھ سکتی ہے۔ایک طرف دنیا کے بڑے ٹھکیدار عالمی برادری کو ایٹمی تباہی سے بچانے کیلئے ایک پرامن دنیا کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں جس کا مظاہرہ ابھی حال ہی میں جاپان میں منعقدہ جی 7 سربراہی اجلاس میں کیا گیا ہے مگر دوسری جانب ایٹمی جنگ کا باعث بننے والے تنازعات مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر انہی ممالک نے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں،جو ان کے دوہرے معیار کی بھرپور عکاسی ہے۔اگر واقعی دنیا کو جنگ وجدل اور تباہی سے بچانا ہے تو ان دونوں تنازعات کو اولین فرصت میں حل کرنا پڑے گا۔اس کے سوا دنیا کے ٹھکیداروں کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔