بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے جموں وکشمیر کی متنازعہ حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا
اسلام آباد: تنازعہ کشمیر کو ایک بین الاقوامی مسلح تصادم ،غیر قانونی قبضے،جبری الحاق اوراستعماری آبادکاری کے مسئلے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور اقوام متحدہ، عالمی برادری اور بین الاقوامی قانون کی نظرمیںبھارتی حکومت کے یکطرفہ اقدامات یا ان کو جائز قرار دینے کے لیے عدالتی فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق یہ بات امور کشمیر کے ماہرین پر مشتمل انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ورکنگ گروپ برائے کشمیر کے 22ویں اجلاس میں کہی گئی جس کا عنوان تھا ”دفعہ370بھارتی سپریم کورٹ میں: دلائل، نتائج اور آگے کا راستہ”۔آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمان کی زیر صدارت ہائبرڈ اجلاس سے وائس چیئرمین آئی پی ایس سفارتکارسید ابرار حسین، کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ کے نمائندے شیخ عبدالمتین،ایگزیکٹو ڈائریکٹر سینٹر آف انٹرنیشنل اسٹڈیز (CISS) مظفرآبادآزادکشمیر ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ ، انقرہ میں مقیم سینئر کشمیری صحافی افتخار گیلانی،سفارتکاراشتیاق حسین اندرابی، بین الاقوامی قانون کے ماہرایڈووکیٹ عمران شفیق،ایگزیکٹو ڈائریکٹر لیگل فورم فار کشمیر ایڈووکیٹ ناصر قادری،کشمیری ماہر تعلیم اور کارکن ڈاکٹر شیخ ولید رسول ،ڈائریکٹر انڈیا اسٹڈی سینٹر انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد ڈاکٹر خرم عباس، کمیونیکیشن اسٹریٹجسٹ انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیزریما شوکت اوردیگر لوگوں نے خطاب کیا جبکہ آزادجموں وکشمیر کی سابق وزیر فرزانہ یعقوب نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ماہرین نے کہاکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی بھارتی کوششوں سے مسئلے کی بین الاقوامی حیثیت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں بالخصوص قراردادنمبر 47کی اہمیت پر کوئی فرق نہیں پڑیگا جس میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ جموں و کشمیر کے الحاق کے سوال پر جلد از جلد رائے شماری کرائے۔ اس طرح پاکستان اور کشمیریوں کے مقدمے کو مضبوط بنانے میں بین الاقوامی قراردادیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔بھارتی سپریم کورٹ نے5اگست 2019کوبھارتی آئین کی دفعہ 370اور35-Aکی منسوخی کے خلاف دائردرخواستوں پر اپنا فیصلہ گزشتہ ماہ محفوظ کر لیا تھا۔