مقبوضہ جموں وکشمیر میں گزشتہ 4 برسوں میں بھارتی مظالم میں انتہائی شدت آئی ہے، رپورٹ
اسلام آباد: ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کی طرف سے اگست 2019 میں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے علاقے کی سماجی، سیاسی، ثقافتی اور مذہبی شناخت مٹانے کی کوششوںمیں شدت آئی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز (کے آئی آئی آر) کی رپورٹ ”بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموںو کشمیر کے انضمام کے 4 برس“ نے مقبوضہ علاقے کی زمینی صورتحال کی انتہائی سنگین تصویر پیش کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے مقبوضہ علاقے میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے اور 2019 سے علاقے کے قدرتی وسائل کا استحصال بڑے پیمانے پر جاری ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں بے گناہ شہری ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں ، آزادی اظہار کے خلاف کریک ڈاو¿ن اور اختلاف رائے کو بے رحمی سے دبانے اور انسانی حقوق کے محافظوں اور اختلاف کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں بلا روک ٹوک جاری ہیں، صحافیوں، انسانی حقوق کے محافظوں، سیاسی کارکنوں اور اختلاف رائے رکھنے والوں سمیت ہزاروں کشمیری مقبوضہ علاقے اور بھارت کی جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند ہیں۔ رپورٹ میں افسوس ظاہر کیا گیا کہ بھارتی حکام پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے جیسے کالے قوانین کو کشمیریوں پر ظلم و ستم اور نظربندوں کی نظربندی کو طول دینے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ خصوصی حیثیت سے محرومی اور اس کے نتیجے میں قانون سازی کے نتیجے میں خطے میں مقامی آبادی مزید پسماندگی کا شکار ہو گئی ہے اور انہیں حق رائے دہی سے محروم کردیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حد بندی کی آڑ میں سیاسی منظر نامے کی ازسر نو تشکیل خطے کی مسلم اکثریت کو سیاسی نمائندگی اور قانون ساز اسمبلی میں سیاسی فیصلہ سازی کے عمل میں ان کے کردار سے مزید باہر کرنے کا باعث بنی ہے۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور بھارت میں اسکے مکمل انضمام سے مقبوضہ علاقے کی مسلم شناخت مٹانے کے مودی حکومت کے منصوبے کو تقویت ملی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے کے پرانے ڈومیسائل قانون اور دیگر متعلقہ قوانین کی ترمیم نے کشمیر کی الگ شناخت کو مکمل طور پر مٹانے کے لیے بی جے پی کی آبادکاری کی نوآبادیاتی مہم کو ایک اضافی تحریک دی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نام نہاد ترقی کے بھارتی حکومت کے دعووں کے برعکس کشمیر میں 2023 میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 23.1 فیصد ہوگئی ہے۔ 5اگست2019کے بھارتی اقدامات کے بعد صرف چار مہینوں میں 2لاکھ سے زائد کشمیری نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، کئی کشمیری سرکاری ملازمین کو جھوٹے الزامات کے تحت برطرف کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مقبوضہ کشمیر کی معیشت کو 1789 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ زراعت اور اس سے منسلک خدمات کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ 46 ارب روپے لگایا گیا ہے، پھلوں کی صنعت جو کہ تقریباً 60-70 فیصد مقامی آبادی کے لیے روزی روٹی فراہم کرتی ہے، تباہی کے دہانے پر ہے جبکہ سیاحت، جو ریاست کی جی ڈی پی کا 6.98 فیصد ہے، اپنی کم ترین سطح پر ہے۔
رپورٹ کے اختتام میں کہا گیاکہ مودی حکومت دنیا کی توجہ کو حقیقی مسائل سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے اور مقبوضہ علاقے کے ان چونکا دینے والے زمینی حقائق کو جھوٹ کے ذریعے چھپا رہی ہے اور اپنے من گھڑت نارمل بیانیہ کو پیش کر رہی ہے۔ رپورٹ میںبین الاقوامی برادری اور بااثر عالمی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ علاقے میںوحشیانہ اقدامات کے لیے بھارت کو جوابدہ ٹھہرائیں۔