بھارت میں مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز جرائم جاری ، سیکولر ریاست ہونے پر شکوک شبہات پیدا ہو گئے
واشنگٹن:واشنگٹن میں قائم تنظیم ہندوتوا واچ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ بھارت کی مذہبی اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز جرائم جاری ہیں جوکہ اسکے ایک سیکولر ریاست اوردنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوئوں کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر رہے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق نفرت انگیز تقاریر پر نظر رکھنے والی تنظیم ہندوتوا واچ کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ بھارت میں 2014میں نریندر مودی کی سربراہی میں ہندوتوا بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے بھارت میں نفرت انگیز تقاریر اور اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ستمبر میں ہندوتوا واچ نے اپنی ششماہی رپورٹ میں کہاتھا کہ رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران نفرت انگیز تقاریر کے تقریبا 80فیصدواقعات بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں یا مودی حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں رونما ہوئے ہیں۔ یہ اعدادوشمار خاص طور پر حیران کن ہیں کہ بھارت کی صرف 45فیصد آبادی بی جے پی کی حکومتوں کے زیر کنٹرول ہے ۔2021میں اپنے قیام کے بعد سے ہندوتوا واچ مسلم مخالف جذبات کو بھڑکانے والے ہندو قوم پرستوں کودنیابھر میں بے نقاب کر رہی ہے ۔تنظیم کے بانی رقیب نائیک اور ان کی 13 رکنی ٹیم نے ہندوتوا واچ کی ویب سائٹ پربھارت میں نفرت انگیز جرائم اور تقاریر سے متعلق 12سوسے زائد ویڈیوز کو اپ لوڈ کیا ہے جنہیں لاکھوں لوگوں نے آن لائن دیکھا ہے ۔ رقیب نائک کے مطابق وہ ایک ایسا پلیٹ فارم بنانا چاہتے ہیں جہاں اقلیتوں کے خلاف تمام نفرت انگیز جرائم کی فہرست اور محفوظ شدہ دستاویزات موجود ہوں۔ رقیب نائیک کا تعلق مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہے جہاں بھارتی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں جاری ہیں۔اپنے کیریئر کا آغاز نائیک نے کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں نہتے شہریوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم کی رپورٹنگ سے کیا۔ اگست 2020میں واشنگٹن ڈی سی کے دورے کے دوران انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی حراست میں ایک کشمیری شہری کے قتل کے بارے میں ٹویٹ کیا جس کے بعد بھارتی قابض انتظامیہ نے مقبوضہ علاقے میں انکے اہلخانہ کو ہراساں کرنا شروع کر دیا اوراس کے بعد انہوں نے امریکہ میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔رقیب نائک کے مطابق بھارت میں کشمیری، مسلمان اور صحافی ہونا انتہائی خطرناک ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے عوام کو نفرت انگیز تقاریر یا نفرت پر مبنی جرائم سے متعلق خبریںبھارت کے جانبدار میڈیا پر نہیں مل سکتی ہیں کیونکہ وہ حکومت کے زیر اثر ہے ۔انہوں نے کہاکہ ایک سال قبل شمالی ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے ایک رپورٹر، انیل یادیو نے ایک ہندی ٹیلی ویژن چینل سے اپنی ملازمت چھوڑ دی تھی اور اپنے فیصلے کی وضاحت ایک ویڈیو میں کرتے ہوئے کہاتھا کہ "میں خود کو صحافی کہنے میں شرم محسوس کرتا ہوں”۔انہوں نے مزید انکشا ف کیاتھا کہ انہیں چینل انتظامیہ کی طرف سے ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ حکمران بی جے پی کی بجائے صرف اپوزیشن پارٹی رہنمائوں پر تنقید کریںاورمسلمانوں سے متعلق تنازعات تلاش کریں، مسلمانوں کو اکسائیں اور انہیں متنازعہ بیانات دینے پر مجبور کریں۔