مضامین

مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسرائیلی ماڈل کی پیروی اور بھارتی اقلیتوں کی حالت زار

: محمد شہباز
shahbazبھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں جارحانہ طور پر فلسطین میں صہیونی اسرائیلی قبضے کے ماڈل کی مکمل پیروی کر رہا ہے۔مودی کے بھارتی وزیر اعظم بننے کے بعد سے نئی دہلی اور تل ابیب کے تعلقات میں نمایاں اضافہ اس بات کی جانب اشارہ ہیں کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر کو ایک اور فسلطین بنانا چاہتا ہے۔بھارت اور اسرائیل کشمیری اور فلسطینی عوام پر ایک جیسے مظالم ڈھا رہے ہیں۔بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں پنڈتوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کیلئے اسی طرح کی بستیاں تعمیر کررہا ہے،جو صہیونی اسرائیل فلسطین میں بہت پہلے تعمیر کرچکا ہے ۔بھارت مقبوضہ جموں و کشمیرمیں ماورائے عدالت قتل، من مانی حراستوں اور تشدد سے لیکر نگرانی تک جابرانہ اسرائیلی تکنیک استعمال کر رہا ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیرکیلئے مودی حکومت کا نیا ڈومیسائل قانون اسرائیلی آباد کار نوآبادیاتی منصوبے کا ہی عکاس ہے۔ جو اسرائیل اہل فلسطین کی سرزمین پر بہت پہلے انجام دے چکا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیرکی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش میں مودی حکومت نے 05اگست 2019 سے اب تک مقبوضہ خطے میں 20 لاکھ سے زیادہ غیر ریاستی لوگوں کو آباد کیا ہے۔مودی حکومت کی منظم مہم جس کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیرمیں آبادیاتی تبدیلی لانا ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مکمل خلاف ورزی ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر اور فلسطین کے عوام گزشتہ ساڑھے 7 دہائیوں سے زائد اپنی آزادی کے منصفانہ مقصد کے حصول کیلئے برہمن سامراج اور صہیونیت کے خلاف برسر جدوجہد ہیں۔کشمیری اور فلسطینی عوام اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ حق خودارادیت کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن قابض بھارت اور اسرائیل مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین میں معصوم انسانوں کا قتل عام کرکے عالمی قوانین کو پائوں تلے روند رہے ہیں۔بھارت اور اسرائیل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث دنیا کے دو سب سے زیادہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ممالک تصور کیا جاتا ہے۔صہیونی اسرائیلی بربریت کے شکار اہل فلسطین کی منصفانہ جدوجہد کی حمایت کرنا مملکت خداداد پاکستان کے قومی مفاد کا حصہ ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے تنازعہ فلسطین سے متعلق پاکستان کی پالیسی اس وقت طے کی جب انہوں نے کہا کہ ‘اسرائیل مغرب کی ناجائز اولاد ہے۔بانی پاکستان نے 8 نومبر 1945 میں فرمایا تھا کہ بھارتی مسلمان محض تماشائی بن کر نہیں رہیں گے بلکہ وہ فلسطین میں عربوں کی ہر ممکن مدد کریں گے۔مسئلہ فلسطین بانی پاکستان کی وفات تک ایک بڑا مسئلہ بنا رہا۔غزہ میں آج کے دن تک ساڑھے اٹھ ہزارفلسطینی اسرائیلی بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں اور مسلم دنیا خاموش تماشائی اس نسل کشی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کررہی ہے۔یقینااب مسلم حکمرانوں کی بھی باری آنے والی ہے کیونکہ یہ دنیا کا مروجہ اصول ہے۔عراق،شام،یمن اور لیبیا کی تحلیل ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے۔
سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا براہ راست تعلق دہائیوں پرانے حل طلب تنازعہ کشمیر سے ہے،جس سے بھارت نے راہ فرار اختیار کررکھی ہے۔ کشمیری عوام کی جانب سے حق خود ارادیت کا مطالبہ کرنے کی پاداش میںان کے سینے گولیوں سے چھلنی کیے جاتے ہیں۔بھارتی بربریت اور ریاستی دہشت گردی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سوا پانچ لاکھ کشمیری بھارتی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جن میں 1989 ء سے لیکر اب تک ایک لاکھ کشمیریوں کی قربانیاں بھی شامل ہیں ،آج بھی عظیم اور لازوال قربانیوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کیلئے بین الاقوامی مطالبے کو اس لیے نظر انداز کر رہا ہے،تاکہ اس کی ریاستی دہشت گردی کا پول دنیا کے سامنے نہ کھل سکے۔ گوکہ عالمی برادی باالعموم اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے بالخصوص اس بات سے بخوبی اگاہ ہیں کہ بھارت کی دس لاکھ افواج مقبوضہ جموں و کشمیر میںکس مذموم مقصد کے حصول کیلئے تعینات ہے۔ لہذا اقوام متحدہ اور دنیا بھر کے امن پسند ممالک مقبوضہ جموں و کشمیرپر بھارت کے غیر قانونی قبضے، ریاستی دہشت گردی اور ظلم و بربریت پر اپنی خاموشی توڑ کرمسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی منگوں کے مطابق حل کرانے میں بی جے پی کی ہندوتوا حکومت پر دباو ڈالے۔
بلاشبہ مودی کا بھارت جنوبی ایشیائی خطے میں موجودہ امن کوبگاڑنے والا ملک ہے۔ تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل تک جنوبی ایشیا میں امن کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کا مسلسل وحشیانہ قبضہ اور اس کی جنگی پالیسیاں جنوبی ایشیا کے امن و استحکام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر معمولی بھارتی جبر سے دم گھٹ رہا ہے۔ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی بدترین مہم کے ذریعے سیاسی اختلاف رائے کو دبا رہا ہے۔ کشمیری عوام گزشتہ 7 دہائیوں سے زائد عرصے سے بدترین ریاستی بھارتی جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔05اگست2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بھارتی جبر نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو اس کے باشندوں کیلئے ایک جہنم میں تبدیل کیا ہے۔ بھارتی فوجی بے گناہ کشمیریوں کو قتل کرنے کیلئے آزاد اور دندناتے پھر رہے ہیں۔یہ بھارت کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کا حصول ممکن نہیں ہے۔
مودی حکومت مسلم اکثریتی مقبوضہ جموں و کشمیرمیں ہندوتوا نظریہ بھی مسلط کر نے کی بھر پور کوشش کررہی ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیرمیں ہندوئوں کی بالادستی اور ہندو طرز زندگی کا قیام مودی اور اس کے حواریوں کا واحد مقصد ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں قبل از اسلام ہندو تہذیب کا احیاء بی جے پی /آر ایس ایس کا اصل ہدف ہے لہذاآر ایس ایس کی حمایت یافتہ مودی حکومت اہل کشمیر کی شناخت اور ثقافت چھیننا چاہتی ہے۔مودی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔البتہ ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوکشمیری عوام اپنی منفرد شناخت اور ثقافت کے تحفظ کیلئے پرعزم ہیں اورمودی کے شیطانی ہتھکنڈے کشمیری عوام کو اپنی منصفانہ جدوجہد سے روک نہیں سکتے۔ جو 1947 سے بہت پہلے جاری ہے۔
جہاں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی سرچڑھ کر بول رہی ہے وہیں مودی کا بھارت مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیلئے ایک خطرناک ملک بن چکا ہے۔مودی کے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم اور تقاریر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہاہے۔جس کی بڑی اور بنیادی وجہ 2014 میں مودی کا بھارتی وزیر اعظم بننا ہے۔اس کے بعد بھارت کی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے پیچھے مودی کی بی جے پی اور اس سے منسلک ہندتوا گروپ ملوث ہیں۔جن میں RSS،بجرنگ دل اور ویشوا ہندو پریشد VHP بطور خاص شامل ہیں اور ان ہندتوا غنڈوں کو مودی حکومت کی آشر باد حاصل ہے۔ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی جاچکی ہے کہ2023 کے پہلے 6 مہینوں میں نفرت انگیز تقاریر کے تقریبا 80 فیصد واقعات بی جے پی حکومت والی بھارتی ریاستوں میں رونماہوچکے ہیں۔مودی حکومت بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف RSS کے نظریے کو ہی مسلسل پروان چڑھا رہی ہے۔آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بی جے پی حکومت بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہندو بالادستی کو فروغ دے رہی ہے۔شورش زدہ بھارتی ریاست منی پور میں جاری عیسائی مخالف نسلی فسادات اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ بھارت مذہبی اقلیتوں کیلئے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں،سکھوں اور دیگر اقلیتوں کے مذہبی مقامات کو ہندوتوا طاقتوں کی جانب سے آئے روز توڑ پھوڑ کی جارہی ہے۔مودی حکومت بھارت میں مذہبی اقلیتوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے ہندتوا دہشت گردی کو پالیسی کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔بی جے پی بھارت کو اپنی مذہبی اقلیتوں سے پاک کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ہندوتوا طاقتیں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کرتی ہیں۔مودی کا آخری خواب بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے۔بھارت کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد اور امتیازی سلوک نے بھارت کے نام نہاد سیکولرازم کو بے نقاب کر دیا ہے۔بھارت میں بی جے پی حکومت کی موجودگی تک بھارت کی مذہبی اقلیتوں کے بنیادی اور مذہبی حقوق کے علاوہ ان کی زندگیاں بھی خطرے میں رہیں گی۔بھارت میں مذہبی اقلیتوں کو بچانے کیلئے انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو آگے آکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔بھارت میں مذہبی اقلیتوں کی حالت زار کو انسانی حقوق کے اکثرعالمی نگراں اداروں کی طرف سے جاری کردہ رپورٹوں میں اجاگر کیا جاتا ہے ،مگر دنیا ٹس سے مس نہیں ہوتی اور نتیجتنا بھارتی مسلمانوں اور کشمیری عوام کو ہجومی تشدد اور فوجی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری بھارتی مسلمانوں، دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم اور تقاریر کو روکنے کیلئے عملی اقدامات کرے،تاکہ بھارتی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نسل کشی سے بچایا جاسکے، جس کی نشاندہی جینو سائیڈ واچ کے سربراہ پروفیسر سٹنٹن گریگوری واشگاف الفاظ میں کرچکے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام بھی نسل کشی کے دہانے پر کھڑے ہیں اور اگر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بروقت اقدامات نہ کیے تو ان کی نسل کشی یقینی امر ہے۔فسطائی مودی کو بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف اس کے جرائم کیلئے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے،تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مزید دیکھئے
Close
Back to top button