بھارتمضامین

بھارت اوراسلام فوبیا

از: سمیع اللہ ملک

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان نوپورشرماکے پیغمبراسلام سے متعلق متنازعہ بیان کے معاملہ پربین الاقوامی سطح پربھی تشویش ظاہر کی جارہی ہے اوراسلامی ممالک کے بڑھتے ہوئے غم و غصے کودیکھ کرانڈیااسلامی دنیامیں اپنے دوست ممالک کووضاحتیں دینے پر مجبورہوگیاہے۔
اس معاملے پراپنی ناراضگی کااظہارکرتے ہوئے قطرکی وزارت خارجہ نے دوحہ میں انڈیاکے سفیردیپک متل کوطلب کرکے باقاعدہ سرکاری نوٹ حوالے کیاجس میں انڈیاسے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئیمعافی مانگنے کامطالبہ کیاہے جبکہ کویت اورسعودی عرب نے بھی اس معاملے پرشدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انڈین سفیر کو طلب کرکے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی کے دورہنمائوں نوپورشرمااور نوین جندل جو جو پارٹی کے میڈیاونگ کے سربراہ بھی تھے کی طرف سے پیغمبراسلام ۖ سے متعلق متنازع اورگستاخانہ بیانات کے بعدتمام عالم اسلام میں سخت غصہ پایاجارہاہے۔بی جے پی کے دونوں رہنماں کے بیانات ملک میں گذشتہ چندبرسوں سے موجودگہری مذہبی تقسیم کی عکاسی کرتے ہیں۔


دراصل مغربی دنیاسے شروع ہونے والی سلام فوبیاکی اس لہرنے پوری دنیا میں اسلام دشمنی کے متعلق جوزہریلاپروپیگنڈہ کیاہے، اسی کایہ بھی شاخسانہ ہے اورہم سب جانتے ہیں کہ جب سے مودی جنتاآئی ہے وہاں مسلمانوں کیلئے عرصہ حیات تنگ کیاجارہاہے۔ گاہے بگاہے ان پربلاوجہ الزامات لگاکران پربے جا تشدد کیاجاتاہے اورکئی مواقع پرتومسلمانوں کوجان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ بے قصورنوجوانوں سے جیلیں بھری جارہی ہیں۔یہ سب کچھ اسلاموفوبیاکے زیر اثرہورہاہے۔اسلاموفوبیایہ دولفظ اسلام اورفوبیاکا مرکب ہے جس کامعنی اسلام اورمسلمانوں سے خواہ مخواہ خوفزدہ ہوناہے جولوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کو جنم دیتا ہے۔یہ لفظ اسلام کے ساتھ مل کرپچھلی کئی دہائیوں سے استعمال ہورہاہے البتہ اس کاعام استعمال 11/9کے بعدسے کثرت سے ہونے لگاہے۔لیکن اسلامی تہذیب سے ڈرنا،مسلم گروہوں سے ہراساں ہونا،اسلام کے خلاف دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی ذہن سازی کرنا،ان کے قلوب واذہان میں ایساڈرپیداکرناجولوگوں کومسلمانوں سے نفرت وعداوت پرابھارے،مسلمانوں پغلط الزامات لگاکراشتعال پیداکرنا،اس پروپیگنڈہ کواسلام فوبیا کہا جاتاہے۔
اسلام کے روزاول سے چراغ مصطفوی سے شراربولہبی کی کشمکش جاری رہی ہے۔چاہے وہ دارالندوہ کی میٹنگ ہو،صلیبی جنگیں ہوں،برمامیں مسلمانوں کی نسل کشی اوربھارت میں ماب لنچنگ،تمام کی بنیادی وجہ مسلمانوں کااللہ کی وحدانیت پراقرارہے۔جب تک مسلمان اسلام پرقائم رہیں گے ان سے کسی نہ کسی صورت میں دنیابرسرِپیکاررہے گی۔مسلمانوں سے شدیددرجہ کی دشمنی کرتی رہے گی۔حالایہ کہ یہ ان کی تہذیب وثقافت میں ضم ہوجائیں۔اس طرزعمل کو چاہے کوئی بھی نام دے دیاجائے۔اسے اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کاردِعمل کہاجائے،یامسلمانوں کی تاریخی غلطیوں کانتیجہ سمجھاجائے یااسلاموفوبیاکا مظہر تصورکرلیاجائے۔بہرکیف مسلمانوں کونفسیاتی طورپرمغلوب کرنے اوران کی تعدادکوکم کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔
ہندوستان شروع سے ہی ذات پات کے طبقاتی نظام سے جکڑاہواتھا۔جس میں اعلی ذات کے لوگ نچلی ذات کے لوگوں کوغلام سمجھتے تھے۔ان پرظلم وستم کرنااوربغض وعداوت عام بات تھی۔وہ چاہ کربھی ترقی نہیں کرسکتے تھے۔عبادت یامذہبی کتابوں کا مطالعہ ان کیلئے ممنوع تھا۔ویدوں کے مطابق انسان پورے ایک جسم کی مانندہے۔اس کاسربرہمن ہے،اس کے بازوکھشتری ہیں۔اس کے ران ویشواورپاوں شودرہیں۔اسی ترتیب کے لحاظ سے ان کا معاشرے میں مقام ومرتبہ تھااس لیے ہندوستان کے لوگ قدیم دورسے آپس میں ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے۔اعلی ذات والے اپنے سے کمترلوگوں سے اورنچلی ذات کے لوگ اعلی ذات کے ظلم وستم کی وجہ سے انہیں پسندنہیں کرتے تھے۔
جب ہندوستان میں اسلام آیااوراس کے نظام عدل میں سب کیلئے یکساں مقام ومرتبہ دیکھ کر ہندوستانیوں کویہ انوکھی چیزمعلوم ہوئی۔ جس کے بعدبہت سارے لوگ مشرف بہ اسلام ہوکراس کی ٹھنڈی چھاں میں آکرسکون محسوس کرنے لگے۔ایک بڑی تعداد کے تبدیلء مذہب سیمہابھارتیآگ بگولہ ہوگئے اوران نچلی ذات سے نفرت کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں سے بھی اسی نوعیت کی عداوت رکھنے لگے۔یہیں سے ہندوستان میں اسلاموفوبیاکی شروعات ہوتی ہے۔یعنی جب سے مسلمانوں نیہندوستان میں قدم رکھاہے اسی وقت سے ان سے نفرت وعداوت کی فضابن گئی تھی۔
میں ان لوگوں سے ہرگزمتفق نہیں ہوں جواسلاموفوبیا کاسرا2014سے جوڑتے ہیں۔ایسے لوگ سیاسی جانبداری کے شکارہیں۔ انڈیاکی اونچی ذاتوں کی فطرت میں اپنے علاوہ دوسروں سے نفرت کرناتھا۔گاندھی جیساشخص بھی اس مرض سے محفوظ نہ رہ سکاالبتہ 1915سے بتدریج اسلاموفوبیا بڑھا ہے۔1915میں ہندو سبھا کاقیام،1923میں ساورکرکی ہندوتونامی کتاب کی اشاعت،1925میں آرایس ایس کاگٹھن،1939 میں گولوالکر کی تصنیفوئی آر اور نیشن ہڈ ڈیفائنڈ(ہم یا ہماری قومیت کی تعریف) سے مسلم دشمنی ایک نئے رنگ وروپ میں شروع ہوئی۔
جس میں قومیت اورحب الوطنی کاپیمانہ صرف ہندومت سے وابستگی ہے اورہندونہ ہوناملک سے غداری کی علامت ہے۔گولوالکر لکھتاہے صرف وہی قوم پرست محب وطن ہیں،جوہندونسل اورقوم سے ہیں۔ باقی سب یاتوغداراورقومی مقصدکے دشمن ہیں یاپھر خیراتی نظریہ رکھنے والے احمق ہیں۔اس کے مطابق ہندوستان میں ہندووں کے علاوہ اگرکوئی رہناچاہتاہے تووہ صرف ہندووں کے رحم وکرم پررہ سکتاہے جب تک یہ اسے حقوق ِشہریت سے محروم رکھ کرغلام کی طرح رکھناچاہیں یاپھردوسری صورت یہ کہ وہ اپنی تہذیب وثقافت کوہندووں کی تہذیب و ثقافت میں ضم کرلے۔ گولوالکروہ شخص ہے جس سے مودی بڑا متاثر ہے۔مودی نے گجراتی زبان میں ایک کتاب جیوتی پنج نامی ان سولہ اشخاص کے بارے لکھی جن سے وہ متاثرتھااوراس میں گولوالکرکی سوانح عمری کوسب سے زیادہ تفصیل سے ذکرکیاہے۔جوشخص ایسے آدمی سے متاثرہواس کے اسلاموفوبیا کے معیار کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔
مودی یاپورے ہندوستان کی ہندوآبادی یوں ہی متعصب نہیں ہوگئی بلکہ مختلف شعبوں میں سالوں سے نفرت کی اس کھیتی میں تعصب کابیج بویاگیاجواب کانٹوں سے بھری فصل بن چکی ہے۔زندگی کے ہرشعبے میں مختلف النوع لوگوں کی الگ الگ اندازمیں مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی کی گئی ہے۔اگرآپ صرف آرایس ایس کی قائم کردہ 30 کے قریب تنظیموں کی لسٹ اوران میں دی جا رہی تعلیم و تربیت پرنظرڈالیں گے تودنگ رہ جائیں گے۔ بی جے پی کے لیڈروں کی طرف سے رسول اکرم ۖ کی اہانت کے بارے میں بیانات اسی تعصب کانتیجہ ہیں۔اس کے تدارک کیلئے ضروری ہے کہ فوری طور پر اوآئی سی کااجلاس بلاکربھارت کی اس متعصب حکومت پرکڑی معاشی پابندیاں لگائی جائیں اورآئندہ کیلئے ایسا بے ہودہ فعل اور بھارت میں بسنے والے تمام مسلمانوں کی حفاظت کیلئے ٹھوس ضمانتیں طلب کی جائیں۔

Channel | Group  | KMS on
Subscribe Telegram Join us on Telegram| Group Join us on Telegram
| Apple 

متعلقہ مواد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button